دعوے رہ جائیں گے دھرے سب کے

دعوے رہ جائیں گے دھرے سب کے
دعوے رہ جائیں گے دھرے سب کے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مرتضیٰ برلاس کی شاعری آشوبِ وطن کی شاعری ہے، یہ نہیں کہ مرتضیٰ برلاس اپنی ذات میں کسی کرب اور عذاب سے نہیں گزرے۔ اُن کی جان پر دُہرا عذاب ہے کہ وطن پرگزرنے والی قیامتوں کو بھی مرتضیٰ برلاس نے اپنی ذات کے دکھوں سے بڑھ کر محسوس کیا ہے۔ تیشۂ کرب نے ان کے دل اور روح دونوں کو بُری طرح گھائل کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی شاعری نے جنم لیا ہے۔

مرتضیٰ برلاس کی شاعری کا سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ انہوں نے رودادِ غم دل اور رودادِ غم زمانہ کہتے ہوئے اپنی جرأت اظہار کا پوری طرح مظاہرہ کیا ہے، مرتضیٰ برلاس اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہے، وہ بہاولپور ڈویژن کے کمشنر بھی رہ چکے ہیں، کئی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر رہے اور پھر ممبر بورڈ آف ریونیو حکومت پنجاب کے طور پر ریٹائر ہوئے، اس کے باوجود ہر دور کے ظالم اور مفاد پرست حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی شاعری کے ذریعے للکارتے ہوئے مرتضیٰ برلاس نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا، کیا اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز کسی شاعر سے آپ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اربابِ اقتدار کے بارے میں اس طرح کی تلخ نوائی کا مظاہرہ کرسکتا ہے:
کتاب سادہ رہے گی کب تک کہیں تو آغازِ باب ہوگا
جنہوں نے بستی اُجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہوگا
مرتضیٰ برلاس ایک بڑے سرکاری افسر ہوتے ہوئے منتقم مزاج اور منہ زور اربابِ حکومت کے روبرو کڑوے سچ کے اظہار کا حوصلہ اور جرأت کیسے کرلیتے تھے، جب میں نے یہ راز معلوم کرنے کی کوشش کی تو میرے علم میں یہ بات آئی کہ بہالپور کا سابق کمشنر لاہور میں چار مرلے کے مکان میں رہتا ہے، جس سرکاری افسر کا بلند ترین عہدوں پر فائز رہنے اور بدعنوانی کرنے کے تمام تر مواقع دستیاب ہونے کے باوجود یہ عالم اور یہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کی خاطر صرف چار مرلے کا مکان ہی تعمیر کرسکا ہو۔

ایسے افسر کے دل میں کسی حکمران کا خوف ہو نہیں سکتا، جس آدمی نے اپنا سر اپنے ایک اللہ کے سامنے جھکا لیا ہے، پھر دنیا کے کسی حکمران کے سامنے اسے جھکنے کی حاجت نہیں رہتی۔ علامہ اقبال نے بھی یہی فرمایا تھا:
یہ ایک سجدہ جِسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
چار مرلے کے مکان پر قناعت کرلینے والا سابق کمشنر بہاولپور ہی حاکمانِ وقت کو اس لب و لہجہ میں خطاب کرسکتا ہے:
خود رہبران قوم ہیں عیاشیوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
یہ وضاحت ضروری ہے کہ مرتضیٰ برلاس نے یہ شعر اپنی سرکاری ملازمت کے دوران کہا تھا، جب مرتضیٰ برلاس کا پہلا شعری مجموعہ ’’تیشۂ کرب‘‘ شائع ہوا تھا، اس میں مصرع اول میں لفظ عیاشیوں کی جگہ آلائشوں استعمال کیا گیا تھا۔ بعد میں حکمران طبقوں کی بڑھتی ہوئی اور بے لگام عیاشیوں کو دیکھ کر برلاس صاحب اپنے اس شعر کے پہلے مصرع کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔

مرتضیٰ برلاس 1957ء سے لے کر1994ء تک سرکاری افسر رہے، اس طویل عرصہ میں بطور سرکاری افسر مرتضیٰ برلاس کا طرز فکر اور اسلوب زندگی اپنے معاصر سرکاری افسروں سے یکسر مختلف رہا۔

افسر شاہی کا جاہ و جلال اور غرور و تکبر مرتضیٰ برلاس کو پسند ہی نہیں تھا، اس لئے بعض بددماغ اور مزاج کے چڑ چڑے افسر مرتضیٰ برلاس کو افسر سمجھتے ہی نہیں تھے، مگر برلاس بھی اپنے ہی ڈھب کے انسان تھے، انہوں نے اپنی پوری سرکاری ملازمت کے دوران اپنی درویشی، بے نیازی اور بے غرضی کی ڈگر کو برقرار رکھا۔ برلاس صاحب نے اس صورت حال کو اپنے ایک شعر میں بھی بیان کیا ہے اور ان کا یہ شعر اب اردو کے ضرب المثل اشعار میں شمار ہوتا ہے:
دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں
اب یہاں سے بات آگے بڑھانے کے لئے میں احمد ندیم قاسمی کی اس رائے کا سہارا لینا چاہتا ہوں، جس کا اظہار انہوں نے مرتضیٰ برلاس کے پہلے شعری مجموعے کے پیش لفظ میں کیا تھا، وہ فرماتے ہیں ’’مرتضیٰ برلاس اردو دنیا میں ایسے منفرد اسلوب میں شاعری کرنے والا واحد شخص ہے، جس کے لہجے میں للکار اور مہکار یک جان ہوگئی ہے‘‘۔

مرتضیٰ برلاس ایک رعب دار شخصیت کے مالک ہیں، ان کے اشعار میں بھی بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گونج محسوس ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی ریشم کی نرماہٹ بھی۔ اس اسلوب بیان نے مرتضیٰ برلاس کے اشعار کو وہ توانائی بخشی ہے کہ ان کے کلام کا زیادہ تر حصہ زبان زدِ خاص و عام ہے۔

قتیل شفائی جیسے ممتاز شاعر نے بھی اس حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے کہ ’’مرتضیٰ برلاس کو منفرد اسلوب کی وہ منزل مل چکی ہے، جس سے ان کی پہچان ہوسکے۔ ان کا اپنا انداز ہے، اپنا لہجہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقام بیشتر شعراء کو پوری عمر کی مشق سخن کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتا‘‘۔مرتضیٰ برلاس کو بھی اپنے انداز بیان پر اتنا اعتماد ہے کہ انہوں نے کبھی مقطع نہیں کہا اور نہ ہی تخلص رکھنے کا تکلف کیا ہے۔

ان کا شعر ان کے اسلوبِ سخن کے باعث خود بولتا ہے کہ میں مرتضیٰ برلاس کی تخلیق ہوں۔ کسی ادارے، حلقے یا ناقد کی تعریف و توصیف اور ستائش سے کبھی کوئی شاعر زندہ نہیں رہتا، بہت سارے ماضی کے نامور شعرااب بے نام ہو چکے ہیں، لیکن مرتضیٰ برلاس کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ ان کے حاسدین چاہے کچھ بھی دعویٰ کریں برلاس کا فن اور شاعری زندہ رہے گی۔

ان کی شاعری کی گونج مستقبل میں بھی ایسے ہی محسوس کی جائے گی، جیسے اُن کے اشعار عہدِ موجود میں مقبولِ خاص و عام ہیں، ہم کچھ دوستوں کی تحریک پر جن میں عباس تابش اور عائشہ مسعود ملک بھی شامل ہیں۔ مرتضیٰ برلاس کی شاعری کا انتخاب گزشتہ ہفتے ’’لعل و گہر‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔

کتاب کا انتساب محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام ہے۔ میری تجویز تھی کہ مرتضیٰ برلاس اس انتخاب کا پیش لفظ خود لکھنے کے بجائے میر تقی میر کا ایک مشہور شعر پیشِ گفتار کے طور پر کتاب میں شامل کردیں۔ میرا تجویز کیا ہوا شعر مرتضیٰ برلاس نے بھی پسند کیا اور خود سے کوئی پیش لفظ لکھنے کا ارادہ ترک کردیا، شعر میں تھوڑی سی تحریف کردی گئی ہے۔ تحریف کے بعد شعر نے جو صورت اختیار کی ہے، وہ آپ بھی ملاحظہ کرلیں:
دعوے رہ جائیں گے دھرے سب کے
جب کہ یہ انتخاب نکلے گا
بہرحال مرتضیٰ برلاس کی کتاب ’’لعل و گہر‘‘ سے کچھ اشعار میں نے اپنے قارئین کے ذوق ادب کی تسکین کے لئے منتخب کئے ہیں:
ہوں میں نجومی اور نہ قلندر، پھر بھی نہ جانے کیوں اکثر
شعر میں وہ کچھ کہہ جاتا ہوں جو کچھ ہونے والا ہے

ایسی بستی کو زمیں چاٹ لیا کرتی ہے
ظلم بڑھ جائے جہاں حد سے زیادہ برلاس

مجھے جو خلق کیا بے ضمیر لوگوں میں
مرے خدا، مجھے بس یہ سزا ہی کافی ہے

دشمنوں سے یہ کہہ دو، زحمتِ عداوت کیوں
ہم میں میرصادق ہیں، ہم میں میر جعفر ہیں

نام اس کا بادشاہت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے، تب تھی اب بھی ہے

چل تو پڑا ہے نظمِ عدل وہ بھی مگر چلاہے یوں
جیسے نشے میں دُھت کوئی مست خرام چل پڑے

نشہ لعنت ہے اگر پھر تو ہے لعنت یہ بھی
اختیارات کا انساں کو نشہ ہو جانا

میں نے کہا کہ بِن ترے کیسے کٹے گی زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں

مجرم ہو بارسوخ تو قانون کچھ نہیں
کس نے یہ نقش کردیا میزانِ عدل پر

اِن کو آنکھیں مت کہو، چہرے پہ دو دھبے کہو
ورنہ اتنا ظلم کب آنکھوں سے دیکھا جائے ہے

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سالگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

میں اپنے دیس کی مٹی سے پیار کرتا ہوں
یہ جرم بھی مری فردِ حساب میں آئے

مجھے کی گئی ہے یہ پیش کش کہ سزا میں ہوں گی رعایتیں
جو قصور میں نے کیا نہیں وہ قبول کر لُوں دباؤ سے

مزید :

رائے -کالم -