دبنگ آئی جی پولیس کا سنہری فیصلہ

دبنگ آئی جی پولیس کا سنہری فیصلہ
دبنگ آئی جی پولیس کا سنہری فیصلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پولیس میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی بہت ضروری ہے ۔ دنیا بھر میں کم یا زیادہ لیکن ہر فورس میں ایسے افراد ضرور پائے گئے ہیں جو اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں ۔ بھارتی پولیس کا ریکارڈ تو پاکستان سے بھی زیادہ خراب ہے لیکن ہمیں امریکی پولیس یہاں تک کہ سی آئی اے میں بھی ایسے افراد کا علم ہے جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں ۔ دنیا بھر کی افواج کے حوالے سے کورٹ مارشل کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں ۔ اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ خطا کا پتلا کہیں بھی ہو اس سے غلطی یا جرم سرزد ہوتا ہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کا عمل اس قدر تیز ہو کہ جرم کرنے والا سزا سے بچ نہ سکے ۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے پنجاب پولیس میں احتساب کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے اندرونی احتساب کے لئے باقاعدہ اعلی سطحی سیل بھی قائم کیا ہے ۔ابتدا میں تو یہ محض کاغذی کارروائی ہی معلوم ہورہی تھی ۔ وطن عزیز میں اکثر ایسے دعوے میٹنگز اور فائلوں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی جی پنجاب نے صرف میٹنگز ہی نہیں کیں بلکہ عملی اقدامات بھی شروع کر دیئے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب نے ایک دو ماہ کی بجائے 1990 سے لے کر 2016 تک کی مدت میں پولیس اہلکاروں سے لے کر ڈی ایس پی کی سطح تک کے افسران کے خلاف درج ہونے والی شکایات کی فائلیں کھول لی ہیں ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں قتل ، ڈکیتی ، زیادتی ، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی سمیت دیگر اہم سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ہونے کے بعد چالان ہونے یا سزائیں معاف کروانے والے ڈی ایس پیز سے کانسٹیبل تک کے ایک ہزار افسروں اور اہلکاروں کی فہرستیں بھی مرتب ہو چکی ہیں جبکہ دیگر شکایات کے حوالے سے بھی ایکشن لیا جا رہا ہے۔اس کارروائی پر انہیں غیر معمولی جرأت مند اور دبنگ آئی جی کہا جانے لگا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ 26 سالوں میں اختیارات کے غلط استعمال پر 4119 افسروں اور اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے ۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا کہ95 فیصد مقدمات تفتیش سے قبل مدعی کے ساتھ صلح صفائی کے بعد خارج ہو گئے تھے لیکن آئی جی پنجاب نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے ان کی دوبارہ انکوائری کا حکم دے دیا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4119 افسروں اور اہلکاروں کے خلاف درج 2295 مقدمات کی تفتیش ری اوپن کی جا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کی فہرستیں مرتب کر کے سی سی پی او ، آرپی اوز ، ٹریفک پنجاب ، سپیشل برانچ پنجاب اور پنجاب کانسٹیبلری کے افسران کو بھجوا دی گئی ہیں تاکہ اعلی سطح پر ان انکوائریوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے ۔ آئی جی پنجاب نے ضلعی سطح پرایس ایس پی ڈسپلن اینڈ انسپکشن ، ایس پی ایڈمن اور ایس پی ہیڈکوارٹر کو ان کمیٹیوں کا سربراہ بنایا ہے ۔اس بارے میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ان اہلکاروں کی ڈسٹرکٹ سکیورٹی برانچ ، سپیشل برانچ اور آئی بی سے بھی کلیئرنس لی جائے اور ریکارڈ چیک کیا جائے کہ ان کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج ہے یا نہیں یا پھر یہ لوگ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی تو نہیں کر رہے ۔ اسی طرح نوکری سے برخاست اور معطلی کے بعد بحال ہونے والے افسروں اور اہلکاروں کے کیسز کو بھی چیک کرنے کا کہا گیا ہے ۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیاہے کہ لگ بھگ ایک ہزار افسرو اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کئے جانے کا امکان ہے کیونکہ آئی جی پنجاب محکمہ پولیس کو کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں ۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ماضی میں تھانہ کلچر نے عام شہری اور پولیس کے درمیان خلا پیدا کر کے عدم اعتماد کی فضا قائم کر دی تھی لیکن ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اگر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تو عوام کا اعتماد بحال ہو جائے گا ۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب کی جانب سے گذشتہ 26 برس کی فائلیں کھول کر مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز بارش کا وہ پہلا قطرہ ہے جو ماضی میں برس جاتا تو اب تک ہریالی آ چکی ہوتی ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ عوام پولیس کے خلاف نہیں ہیں بلکہ پولیس میں موجود ان کالی بھیڑوں کے خلاف ہیں جنہیں خود پنجاب پولیس کے سپہ سالار بھی فورس میں رکھنے کے قائل نہیں ہے ۔ آج بھی ہمیں سوشل میڈیا پر ایسے افسران کی تصاویر نظر آتی ہیں جو عوام دوست ہیں اور ان کی کہیں اور تعیناتی کے وقت عام شہری ان پر پھول برساتے نظر آتے ہیں اور ان کا تبادلہ منسوخ کرنے کی اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ عام شہری جہاں کرپٹ افراد سے نفرت کرتا ہے وہیں وہ ایماندار اور بہادر پولیس اہلکار کو عزت کی نگاہ سے بھی دیکھتا ہے ۔ میرے خیال میں اگر آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے محکمہ پولیس میں موجودہر اس افسر و اہلکار کے خلاف ایکشن لینے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے جس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو تو ہمیں آئی جی پنجاب کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے ۔ یہ تاریخ ساز فیصلہ ہے جس پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو گیا تو یقیناًپنجاب پولیس ایک منفرداعزاز کی حامل ہو جائے گی ۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -