عوام نے اپنی باری خوب کھیلی۔۔۔؟

 عوام نے اپنی باری خوب کھیلی۔۔۔؟
 عوام نے اپنی باری خوب کھیلی۔۔۔؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہ حوصلہ تھا جو بر وقت میرے کام آیا 
جکڑ چکا تھا بدن کو بھنور اداسی کا 
مقابلہ”عوامِ ناتواں“ نے خوب کیا۔۔۔ووٹ کی پرچی نے طاقت دکھا دی 
تبصرے، دعوے، پراپیگنڈے دھرے کے دھرے رہ گئے
”سرپرائز“ تو مل ہی گیا ہوگا ۔۔۔اور اگر ابھی بھی کوئی گنجائش رہ گئی ہے تو جتنی بڑی تعداد میں ” نتائج“ یا ”گنتی“ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اس سے ہو جائے گا۔
عوام اپنے”امتحان“ میں پورا اترے، سیاسی شعور کا قابل داد مظاہرہ کر دیا”باہر نہ نکلنے“ اور ”سب سہنے“ کے شکوے شکایتیں ”دھو“ ڈالیں۔۔۔اس بار عوام نے اپنی باری خوب کھیلی، بڑے بڑے تجربہ کاروں کی ”وکٹیں“ لیں ایسی پرفارمنس دکھائی کہ دھول چٹا دی، ثابت کر دیا کہ دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت”کھیل“ کو سمجھتی ہے اور کھیلنا  بھی جانتی ہے۔
5کروڑ سے زیادہ افراد نے ووٹ ڈالا، ٹرن آؤٹ بہت زیادہ نہیں رہا تو یہ حال ہو گیا، تمام ”سروسز“بحال ہوتیں تو اعدادوشمار ناجانے مزید کیا رنگ دکھاتے ۔
یہ تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ تاریخ خود غرضوں پر مہربان نہیں ہوتی۔۔۔
  2024 عالمی سطح پر انتخابات کا سال ہے، اس سال کم از کم 64 ممالک میں انتخابات ہوں گے اور دنیا کی 49 فیصد آبادی حق رائے دہی کا استعمال کرے گی۔۔۔پاکستان کے عوام نے اپنا رنگ جما دیا اب باری بقیہ 63یا 62ممالک میں بسنے والے جمہوریت پسندوں کی ہے۔اب گیند ان کے کورٹ میں ہے۔بیشتر ممالک میں انتخابات اتوار کو ہوتے ہیں، اس بار پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد جمعرات کو ہوا مگر دنیا کے زیادہ تر خطوں میں الیکشن کے لیے اتوار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اتوار چھٹی کا دن ہوتا ہے لیکن پاکستان کے عوام نے ووٹ کی پرچی سے ایسی باری کھیلی کہ جمعرات کو ہی”چھٹی“ کرا دی بڑے بڑے برج الٹ دئیے۔ امریکہ وہ ملک ہے جہاں منگل کے دن انتخابات کرائے جاتے ہیں، کینیڈا میں پیر، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہفتہ اور برطانیہ میں جمعرات کا دن انتخابات کے لیے مخصوص ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی ابتدائی مشاہدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، 63 فیصد پولنگ اسٹیشن پر زیادہ ووٹر تھے، کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں خواتین نے 10 فیصد سے کم ووٹ ڈالا ہو، الیکشن میں 12 خواتین منتخب ہوئی ہیں جبکہ 8  ایسے آزاد امیدوار بھی منتخب ہوئے جن کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں تھی۔فافن رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں ووٹ بینک قائم رکھا، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بڑھا جبکہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک برقرار رہا۔
 عام انتخابات کا مرحلہ تو مکمل ہوچکا اب نئی حکومت کی تشکیل ہو گی،قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے مجموعی نشستوں میں سے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔ قومی اسمبلی کی عمومی نشستیں 266 ہیں جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں شامل کرکے کل نشستیں 336 ہیں جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کیلئے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔
مستقبل کی نئی منتخب پارلیمان کے بنیادی خدوخال کو کروڑ وں ووٹرز نے طے کر دیا ہے۔ اب اہل سیاست و قیادت اور مستقبل کے حکمرانوں پر کچھ اہم اور بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس حقیقت کو پیش نظر رہنا چاہئے کہ ملک کے تہہ در تہہ مسائل کو کوئی ایک پارٹی حل نہیں کرسکتی، اس کیلئے نئے منظر نامے میں ابھرنے والوں کی شراکت کاری لازمی ہوگی جس کیلئے اولین ترجیح کے طور پر ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا ہوگا اور سیاسی معاملات کو مکالمے اور ڈائیلاگ سے طے کرنے کی روش اپنانا ہوگی۔
 پاکستانی عوام نے بلند آواز میں اور واضح طور پر فیصلہ سنادیا ہے۔ عوام کے مینڈیٹ میں ہیرا پھیری کرنے کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ عدم استحکام اور افراتفری کا باعث بنے گا۔ انتخابی عمل کی گرمی گزر گئی، یہ ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے،سیاسی قیادت کو معمولی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کو درپیش بے پناہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔ 
صرف ایک رپورٹ کا ذکر کریں توبلوم برگ کے مطابق پاکستانی حکومت جیسے بھی بنے،آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گاالیکشن نتائج جو بھی ہوں، پاکستان کے لئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے، بیرونی قرضوں کی صورتحال غیریقینی، غیرمستحکم ہے۔ حکومت کو آئندہ 6 مہینوں میں کئی ادائیگیاں کرنی ہیں، شرح سود آئندہ 9 سے 12 ماہ میں کم ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام مارچ میں ختم ہو رہا ہے۔ سرمایہ کار آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے معاہدے کیلئے نئے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں، نئی حکومت آئی ایم ایف سے جاری معاہدہ ختم ہونے کے بعد نیا معاہدہ کر سکتی ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران پاکستان نے 25 بلین ڈالرز کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔یہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے، اگلے مالی سال کے دوران ادائیگیوں کا اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا،معیشت نئے بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر گرجائے گی۔
عام انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنیوالی حکومت کو اقتصادیات، مالیات، سماجیات اور سیاسیات سمیت کثیرالجہتی چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ ملک گزشتہ سال آئی ایم ایف کے 3ارب ڈالرز بیل آؤٹ پیکیج کے ذریعہ دیوالیہ ہونے سے بچا لیکن یہ مالی سپورٹ آئندہ مارچ میں پوری ہوجائے گی جس سے بحران ٹلے گا نہیں بلکہ ایک نئے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی جس پر تیزی سے عمل درآمد کیلئے مذاکرات آئندہ نو منتخب حکومت کیلئے بڑے نازک اور اہمیت کے حا مل ہوں گے۔ سخت اصلاحات کی وجہ سے پاکستان کو ریکارڈ مہنگائی اور سست شرح نمو کا سامنا ہے نئے امدادی پروگرام کا مطلب بحالی کے تنگ راستے پر اپنے قدم جمائے رکھنا ہوگا لیکن اس سے پالیسی آپشنز محدود ہوجائیں گے۔ پریشان حال عوام اور صنعتوں کو پیداوار بڑھانے کے لیے حکومتی معاو نت فراہم کرنا دشوار ہوگا۔
6 ماہ میں عوام سے 472 ارب روپے پٹرولیم لیوی وصول کی جا چکی ہے جو گزشتہ برس اِسی مدت کے دوران وصول کی جانے والی لیوی سے 166 فیصد زیادہ ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران پیٹرولیم لیوی کی مد میں 222 ارب روپے وصول کیے گئے تھے۔دوسری جانب یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں دوسرا بڑا اضافہ کیا گیا جس سے عوام پر 98 ارب روپے کا بوجھ پڑیگا۔بجلی کے بلوں کا بوجھ اس کے علاوہ ہے۔
غریب مفلوک الحال عوام کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اس کا اندازہ گیلپ کے اس سروے سے لگا لیں کہ پاکستان میں 60 فیصد شہری سٹریٹ لائٹس سے محروم ہیں۔ گھروں کے اندر کتنے”اجالے“ ہونگے؟ نئی حکومت کو سوچنا اور دیکھنا ہو گا، روشنیوں کو واپس لانا ہو گا۔
 انتخابی ریس ختم ہو گئی سیاسی کشیدگی بھی ختم کرنا ہو گی۔۔۔ اب سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں استحکام کو یقینی بنائیں 
بے یقینی کا دور ختم کریں۔۔۔ ملک کو استحکام کی شدید ضرورت ہے تاکہ اقتصادی بحالی کیلئے بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کے دروازے کھلیں۔
 دوسری، تیسری یا چوتھی باری لینے اور صرف اپنے لیے کھیلنے کی پالیسی چھوڑیں، مفاد پرستی چھوڑ کر ملک کیلئے کھیلیں اور اپنی ”دی بیسٹ  پرفارمنس“ دکھائیں۔۔۔ وگرنہ آپ بھی ”آؤٹ“ ہونگے۔
جھگڑا فارم 45کا ہو یا فارم 49کا۔۔۔بحث اور ہٹ دھرمی چھوڑیں ”پرفارم“ کریں انتخابات میں جو ہار گئے ہیں وہ ”آرام“ کریں اور جو جیت گئے ہیں وہ ”کام“ کریں عوام نے اپنا کام کر دیا۔۔۔۔ اب نظریں آپ پر جمی ہیں۔

"جمہوریت کی خیر ہو اس مملکت کی خیر "

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں