عدالتیں فعال تو پولیس مقابلے کیوں؟

پاکستان میں عدالتوں کے فعال ہونے کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں گزشتہ روز بھی ایک خبر ملی کہ سپریم کورٹ میں جناب چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحیی آفریدی کے پہلے 100 دن میں 8 ہزار سے زائد کیسز کے فیصلے ہوئے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی لیکن اسکے ساتھ ہی چند دنوں پہلے کی ایک خبر یاد آگئی۔ جس میں سرائے عالمگیر کی چار سالہ معصوم بچی زہرا جنید کے ساتھ ہونے والے ریپ اور قتل کے واقعہ کے ملزم کو پولیس نے ”شناخت کر لینے، مضبوط شواہد“حاصل کر لینے کے باوجود ایک ”مبینہ پولیس مقابلے“میں مار دیا تھا۔ اگر پاکستان میں عدالتیں فعال ہیں تو پھر ایسے ملزم کو جس کے خلاف پولیس کے دعوے کے مطابق ”ناقابل تردید ثبوت“ موجود تھے اور ملزم نے پولی گراف ٹیسٹ میں دھاڑیں مار کر روتے ہوئے اعتراف بھی کیا تھا۔ سب سے بڑی بات ملزم کا ڈی این اے بھی میچ کر گیا تھا۔ ریپ کیس میں اگر ڈی این اے میچ کر جائے تو پھر سزا نہ دینے کا کیا جواز ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسے مجرموں کو (معذرت چاہتا ہوں ملزموں نہیں مجرموں نے لکھا)پولیس مقابلوں میں کیوں مارا جاتا ہے۔ ثبوت موجود ہیں تو عدالت سے سزا دلوائیں۔ مگر پولیس کا کہنا ہے کہ عدالتیں ”بہت تاخیر“کر دیتی ہیں اور اگر سزا ہو بھی جائے تو بڑی عدالت یا اس سے بڑی عدالت سے ملزموں کو ضمانت اور پھر رہائی مل جاتی ہے، لہٰذا پولیس کے افسر بند کمروں میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ”ریپ کیسوں“ اور خصوصا بچوں کے ریپ کیسوں میں عوام کے ”جذبات کو ٹھنڈا“کرنے کے لیے پولیس مقابلہ کیا جاتا ہے۔ یعنی پولیس حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام کمزور ہے ملزم کو سزا نہیں دلائی جا سکتی ۔ لیکن یہی پولیس حکام اگر ملزم کوئی با اثر شخص ہو تو اس کے خلاف پولیس مقابلے کا ”ڈرامہ رچانے“کی جرائت نہیں کرتے۔ پولیس مقابلے کا ڈرامہ ان ملزموں یا مجرموں کے خلاف ہوتا ہے جو " کمزور " ہوتے ہیں۔ 4 سالہ زہرا جنید کے کیس میں زہرا کو اسکے 34 سالہ ہمسائے ندیم نے اپنے گھر لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ 11 دن تک تفتیش ہوتی رہی اور پھر جب ڈی این اے میچ کر گیا تو ندیم کو گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے بعد پولیس کی ”ڈرامائی ایف آئی آر“ سامنے آئی۔ جس کے مطابق پولیس اہلکار ندیم کو گاڑی میں لے کر جا رہے تھے کہ وہ ہتھکڑیوں سمیت گاڑی سے چھلانگ لگا کر فرار ہو گیا۔ اس کا پیچھا کیا تو ”کہیں سے لڑنے جھگڑنے“ کی آواز آئی اور پھر انہیں ملزم شدید زخمی حالت میں ملا جس کے سر میں گولی ماری گئی تھی۔ اب اس رپورٹ پر اعتبار کرنے کو اگر کسی کا دل کرتا ہے تو ضرور کرے۔ مگر اس واقعہ نے مجھے کچھ پرانے واقعات یاد کرا دئیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوائے وقت لاہور میں کرائم رپورٹنگ کرتا تھا۔ قصور میں ایک پانچ چھ سالہ معصوم بچی کی لاش کھیتوں سے ملی۔ تفتیش میں پتہ چلا کہ مقتولہ کے والد کی دکان پر کام کرنے والے دو لڑکوں نے اس بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے قتل کرکے کھیتوں میں پھینک دیا تھا۔ ملزمان کی گرفتاری کے چند دن بعد ایس ایس پی لاہور نے ہم چند کرائم رپورٹروں کو اپنے گھر مغل پورہ بلایا اور جب وہ خود کمرے میں آئے تو سینیئر کرائم رپورٹر نعیم مصطفی نے ان سے پوچھا کہ کیا پولیس مقابلہ ہو چکا۔ یہ سن کر انہوں نے اپنا سر ہلا کر تصدیق کی۔ اس کے بعد انہوں نے ہم رپورٹروں سے درخواست کی کہ اس کیس کو برائے مہربانی ”مبینہ مت لکھنا“خبر لکھتے ہوئے بچی کا چہرہ نگاہوں کے سامنے آیا لیکن صحافتی اصولوں کے مطابق مبینہ لکھا۔ ایک اور ریپ کیس گھوڑے شاہ میں ہوا جہاں پر بدقسمت 5 بچوں کی ماں نے چوہے مار گولیاں کھا کر اپنے بچوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اس عورت کو رات 10 بجے بچوں کے لیے دکان سے بسکٹ ٹافیاں لے کر نکلتے ہوئے چار با اثر اوباش نوجوان اٹھا کر لے گئے تھے اور زیادتی کی تھی۔ تفتیش ہوئی ملزم پکڑے گئے۔ اس وقت کے ایس ایس پی لاہور نے مجھے اور جنگ کے کرائم رپورٹر مرزا نصیر بیگ کو ایس پی سول لائنز کے دفتر بلایا اور ہمیں ملزمان کا اقبال جرم سنایا۔ بعد ازاں ایس ایس پی لاہور نے مجھ سے کہا کہ”کیا کہتے ہیں کیا کریں“۔ تو مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا کہ”میں قاضی نہیں ہوں“جس سے آپ ان کی موت کا فتوی لے رہے ہیں۔ اگلے دن علی الصبح ان چار میں سے دو کو پولیس نے ”پولیس مقابلے میں موت کے گھاٹ“اتار دیا باقی دو کو ٹرائل کے لیے جیل بھجوا دیا گیا۔ پھر اسی شام ایس ایس پی لاہور کی طرف سے ایک ”چٹھی“ ملی کہ اس کو بھی ”خبر کا حصہ“بنا دیں۔ اس میں لکھا تھا کہ ملزموں کے اعتراف جرم کے بعد جناب ایس ایس پی لاہور گڑھی شاہو میں ایک عالم دین کے گھر گئے اور ان سے پوچھا کہ ملزموں کی اسلامی سزا کیا ہے۔ جس کے بعد اس سزا پہ ”عمل درآمد“ہوا۔ یعنی دو شادی شدہ ملزموں کو پولیس مقابلے میں ”پھڑکا“دیا گیا اور جو غیر شادی شدہ تھے انہیں عدالتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی دور کا ایک اور واقعہ یاد ہے لاہور ایئرپورٹ پر بم دھماکہ کرنے والے رینجرز کے سابق اہلکار کو لاہور پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وہ بعد ازاں مختلف اداروں کی تفتیش سے گزرتا ہوا لاہور پولیس کے پاس دوبارہ پہنچا تو ایک دن اچانک پولیس نے خبر جاری کر دی کہ ملزم مزار بیبیاں پاک دامن کے پاس اس رکشے سے اتر کر بھاگ گیا جس میں پولیس والے اسے ایک دوسرے تھانے لے کے جا رہے تھے۔ اس کے بعد اس کے پولیس مقابلے میں مرنے کا انتظار شروع ہوا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک دن واہگہ جانے والے راستے پر اس ملزم کو ”بھون“دیا گیا ۔ یہ صرف غیر معمولی نوعیت کے واقعات ہیں۔ پولیس مقابلوں کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ دیکھی تھی کہ پنجاب میں 2020 ء اور21میں 186 افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا گیا جبکہ 2019 ء سے 2024 ء تک 550 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ اسی مدت میں سندھ میں دو ہزار افراد کو پولیس مقابلہ میں ”اللہ کے پاس“ بھیجا گیا ۔