مذاکرات سے ملاقات تک

پی ٹی آئی نے مذاکرات کو ملاقات سے نتھی کردیا اور عمران خان نے ملاقات کے بغیر مذاکرات کی ہدائت کردی۔ پاکستان پی ٹی آئی کے سیاسی نابالغوں کے نرغے میں ہے۔ پہلے کہنے لگے کہ ملاقات کروائیں، جب حکومت اس پر آمادہ ہوئی تو نئی فرمائش کردی کہ ملاقات جیل مینوئل کو معطل کرکے کروائی جائے اور ان کے علاہ کوئی آنکھ اور کوئی کان دروازے پر نہ ہو۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جب فیصل واوڈا اور رچرڈ گلینن گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک پریس کانفرس نے سب کچھ تلپٹ کردیا اور عمران خان کے بہی خواہ دم دبا کر بھا گئے۔
جہاں تک ایجنسیوں کی عدم موجودگی میں ملاقات کا تعلق ہے تو عمران خان کی ساری سیاست ہی ایجنسیوں کے مرہون منت رہی ہے۔ وہ جب اقتدار میں نہیں تھے تو بھی ایجنسیاں انہیں چلاتی تھیں، جب اقتدار میں آئے تو بھی ایجنسیوں کی حکومت تھی اور اب جب جیل میں ہیں تو بھی ایجنسیاں انہیں بقول فیصل واوڈا بشریٰ بی بی کے زہر دینے سے بچائے ہوئے ہیں۔ اس لئے عمران خان کو ایجنسیوں سے اب کیونکر شرم آنے لگی ہے اور یہ اصرار کہ ان کی عدم موجودگی میں ملاقات کروائی جائے بے جا کی تکرار ہے اورمقصد صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرلیا جائے۔
جہلم سے تعلق رکھنے والا کامران مال روڈ پر عینکوں کا پھٹہ لگاتا ہے اور عمران خان کا سپورٹر ہے۔ اس کے والد واپڈا میں تھے اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس نے بھی واپڈا میں بھرتی ہونے کی بھرپور کوشش کی اور چودھری فواد حسین کے لاروں پر لگا رہا مگر کام نہ بن سکا۔ مجھ سے بھی اس نے کہا تو میں نے بھی واپڈا میں اپنے جاننے والوں سے درخواست کی ہوئی ہے، دیکھیں کیا بنتا ہے؟ گزشتہ روز ملا تو جھٹ سے پوچھنے لگا کہ عمران خان کب باہر آرہے ہیں۔ میں نے کہا کہ عمران خان کا باہر آنا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ اس پر اس نے خود سے توجیہ دی کہ عمران خان مانتا بھی تو نہیں ہے، پھر دوسری توجیہ دینے لگا کہ وہ 20جنوری کا انتظا ر کر رہا ہے، جونہی ٹرمپ آئے گا عمران خان باہر آجائے گا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور اس کو یہ کہہ کر گاڑی چلادی کہ تمھاری نوکری اور عمران خان کی رہائی ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔
دراصل سیاست عمران خان کا میدان نہ تھا مگر ان کو اس میدان میں دھکا دے دیا گیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ گوہر خان، عمرا یوب اوراسد قیصر کا ہے۔ پی ٹی آئی کے سارے سیاسی لیڈر انتہائی غیر سیاسی ہیں انہیں اپنے گھر سے آگے تیسرے گھر والا نہیں جانتا ہو گا۔ ان غیر سیاسی لوگوں نے ساری سیاست کا بھٹہ بٹھایا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن صحیح کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست میں ہونا ہی نہیں چاہئے تھا۔ اسی طرح تارکین وطن بھی سیاست کی الف ب سے واقف نہیں ہیں، ان کی ساری توجہ ڈالر اور پاؤنڈ کمانے میں خرچ ہوتی رہتی ہے اور سیاست کو پارٹ ٹائم ہابی کے طور پر کرتے ہیں۔ جنرل (ر) فیض حمید نے ایسے تمام سیاسی بغلولوں کو اکٹھا کرکے اپنی بین بجانے کی کوشش کی تھی مگر جاتے جاتے جنرل باجوہ وہ بین بند کر گئے اور نئی قیادت نے تو خود جنرل فیض کو بھی بند کردیا۔
پی ٹی آئی مذاکرات بھی چاہتی ہے اور عمران خان کی گڈی بھی اڑائے رکھنا چاہتی ہے مگر اس کو خود عمران خان کے ٹوئیٹ نے بو کاٹا کردیا ہے۔ دراصل سوشل میڈیا اکاؤنٹ عمران خان کے قبضے میں ہی نہیں ہے، اس لئے اندرون ملک اور بیرون ملک پی ٹی آئی کاحال اس پٹھا ن کا ہے جس نے آدھے رستے میں کہا تھا کہ کما ل ہے اوپر والے پشاور جارہے ہیں اور نیچے والے کراچی جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کبھی کہتی ہے کہ تحریری مطالبات نہیں دینے، کبھی کہتی ہے کہ دینے ہیں۔ شیر افضل مروت علیحدہ بین بجا رہے ہیں کہ محسن نقوی کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنایا جا ئے۔ جبکہ عمران خان کی پوسٹ کے بعد مذاکرات لاحاصل ہو چکے ہیں، یہ معاملہ بس ٹی وی کی حد تک ڈسکس ہو رہا ہے، عملی طور پر ڈیڈلاک آچکا ہے۔ عمران خان چاہتے ہی نہیں ہیں کہ مذاکرات ہوں۔ عمران خان تو خود کبھی مذاکرات کے قائل نہیں رہے ہیں، وہ اپنے حواریوں کو کیونکر اس کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
ادھر صاحبزادہ حامد رضا علیحدہ بین بجا رہے ہیں کہ حکومت اپنی ڈیمانڈ دے۔ حکومت کون سا ریسیونگ اینڈ پر ہے، ریسیونگ اینڈ پر تو پی ٹی آئی ہے جسے اپنے مطالبات دینے ہیں۔ دراصل پی ٹی آئی پٹ چکی ہے، یہ جماعت جن کے ہاتھ میں ہے وہ ایسے کاموں کے لئے ٹرینڈ نہیں ہیں۔پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی بھی عمران خان کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے کیونکہ انہیں بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ عمران خان کب کس طرح کا ردعمل دیں گے۔
نون لیگ نے اپنے اندر سے ڈھونڈ کر ٹھنڈے سیاست دانوں کو مذاکرات کی ٹیم میں ڈالا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے ڈھونڈ کر گرم لوگوں کو سامنے کیا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ دونوں اطراف مذاکرات میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔
یار سے چھیڑ چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی