روس۔یوکرین جنگ کا تازہ ترین سبق!

  روس۔یوکرین جنگ کا تازہ ترین سبق!
  روس۔یوکرین جنگ کا تازہ ترین سبق!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کئی قارئین تقاضا کرتے رہتے ہیں کہ روس۔ یوکرین جنگ پر تازہ ترین صورت حال پر کچھ تبصرہ کیا کریں۔ میں نے ہمیشہ ان سے پوچھا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کی تاریخ سے کتنے باخبر ہیں اور اس کے جغرافیئے سے کتنی آگاہی ان کو حاصل ہے۔ ان کااصرار ہوتا ہے کہ یہی کچھ تو وہ جاننا چاہتے ہیں۔ میرا جواب یہ سوال ہوتا ہے کہ اس بارے میں، عالمی تاریخِ جنگ و جدل کا انہیں کتنا شعور حاصل ہے؟ اس موضوع سے واقف ہونے میں قارئین کو جس مشکل کا سامنا ہوگا وہ ان دونوں ممالک (روس اور یوکرین) کی تاریخِ جنگ سے ان کی آگہی کا سکیل ہے۔

ہمارے سکولوں اور کالجوں میں جو تاریخی یا جغرافیائی نصاب تدریس کیا جاتا ہے اس میں اس موضوع پر کوئی خاص معلومات نہیں دی جاتیں۔ برطانوی دورِ غلامی میں  ہمارے سکولوں اور کالجوں کا نصاب جو لوگ وضع کرتے تھے وہ عمداًاپنی غلام رعایا کو جنگی معاملات سے آگہی دینے کا ”رِسک“ مول نہیں لیتے تھے۔لیکن یہ سوال نہایت دردناک ہے کہ 1947ء سے لے کر آج تک کے  78برسوں میں ہم پاکستانیوں نے اپنی درسی کتابوں کی تصنیف و تدوین کا کیا بندوبست کیا ہے؟ ہمارے آج کے ماڈرن سکول کا نصاب سکول کی انتظامیہ طے کرتی ہے جس پر ہمارے صوبائی یا فیڈرل محکمہ ہائے تعلیم کی کوئی نگرانی شامل نہیں۔ اگر ہے بھی تو بس برائے نام……

میرے کئی قارئین نے گزشتہ صدی کی دونوں عظیم جنگوں کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہوتا ہے۔ لیکن ان کو ناٹو، وارسا، اتحادی، محوری، زمینی، سمندری اور فضائی جنگ و جدل کی تاریخ کا علم بس واجبی سا ہوتا ہے۔ہمیں پاکستان کی افواجِ ثلاثہ میں تاریخِ جنگ، جغرافیہء جنگ اور سامانِ جنگ(Equipment)کی ابتدائی، وسطانی اور جدید تاریخ کا کچھ نہ کچھ علم تو ہوتا ہے لیکن  یہ علم و فضل صرف افواجِ ثلاثہ تک ہی محدود رہتا ہے…… سوال یہ ہے کہ اسے سویلین حضرات تک کیسے منتقل کیاجائے؟

مثال کے طور پر اس سوال کو لے لیتے ہیں کہ روس نے دوسری عالمی جنگ میں جو جو لڑائیاں لڑیں ان کی تفصیل ہمارے اخبارات کے سول قارئین تک کیسے منتقل کی جا سکتی ہے؟ اور دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کے جرمنی کے ”آپریشن باربروسہ“ کی تفصیل کہاں سے مل سکتی ہے؟ آج کا گریجوایٹ تو اس نام سے بھی کم کم آگاہ ہوگا۔روس کے بڑے چار شہروں میں ماسکو، لینن گراڈ، سٹالن گراڈ اور کرسک وغیرہ کے علاوہ ہمارے طلباء کو پانچویں روسی شہرکا نام تک معلوم نہیں حالانکہ روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے…… کچھ یہی حال یوکرین کی تاریخ اور جغرافیئے کا ہے۔

پھر ایک بڑا اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ آج کا پاکستانی طالب علم روس  اور یوکرین کے دریاؤں، میدانوں اور پہاڑوں کا کتنا شناسا ہے؟ ان دونوں ملکوں کے بڑے بڑے شہروں کے ناموں کا صوتی آہنگ اور تلفظ بڑا عجیب و غریب ہے۔یہ وہی بات ہے کہ کسی روسی یا یوکرینی باشندے کو پاکستان کے شہروں مثلاً قصور، خانیوال، فیصل آباد اور رسالپور وغیرہ کا کچھ معلوم نہیں کہ یہ کہاں ہیں اور ان کا تلفظ ان کے لئے کتنا مشکل یا کتنا آسان ہے…… ایک اوربات جو کسی ملک کے شہروں اور قصبوں کی مشہوری کاسبب بنتی ہے وہ وہاں کی تاریخِ جنگ ہے۔ ہمیں جاپان کے شہروں میں سے صرف ٹوکیو کا نام معلوم ہے۔ یا پھر اس کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ناموں کا علم ہے اور وہ بھی جوہری جنگ کے حوالے سے ہے۔

لہٰذا اگر کسی قاری نے روس اور یوکرین کی حالیہ تین سالہ جنگ (2022ء تا2024ء) کی کچھ تفصیل جاننی ہے تو اسے ان ممالک کے معروف شہروں اور قصبوں وغیرہ کے نام یاد کرنے چاہئیں اور نقشے پر ان کی لوکیشن کا علم ہونا چاہیے…… آج کے فارن میڈیا میں اس جنگ (روس۔ یوکرین جنگ) کی جو خبریں آ رہی ہیں وہ سرتاسر ”یکطرفہ“ ہوتی ہیں۔ ہمارا ابلاغی مبلغِ علم صرف مغربی دنیا کے چند انگریزی اخبارات یا ٹی وی چینلوں تک محدود ہے۔ زیادہ سے زیادہ بی بی سی (BBC) اور سی این این (CNN) کے علاوہ ہم پاکستانیوں کو کون کون سے دوسرے فارن میڈیا چینلوں کا پتہ ہے جن سے ہم روس۔ یوکرین جنگ کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں؟ جس انگریزی اخبار یا ٹی وی چینل پر اس جنگ  کی خبریں دی جاتی ہیں ان کی لوکیشن کا ہمیں کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں۔اگر مجھ جیسا کوئی کالم نگار اپنے کالم کے ساتھ ان ملکوں کا کوئی نقشہ بھی دے دیتاہے تو ہم اس سے نہایت محدود پیمانے کا استفادہ ہی کر سکتے ہیں۔

انگریزی جاننے والوں اور تاریخِ جنگ سے واقفیت رکھنے والوں میں بھی ایک مختصر سی پاکستانی تعداد ایسی ہوگی جو ان دونوں ممالک کے محاذ ہائے جنگ سے واقف ہوگی۔ہم پاکستانیوں کو تو اب تک اپنے مغربی ہمسایوں (افغانستان اور ایران) کے ان شہروں تک کابھی کوئی علم نہیں جو پاک۔ افغان یا پاک۔ ایران سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

ہم نے پچھلے دنوں سنا تھا کہ پاک فضائیہ نے افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ان ٹھکانوں پر بمباری کی ہے جہاں TTP کے دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔ لیکن اس بمباری میں کون کون سے طیارے استعمال کئے گئے، ان کی تعداد کیا تھی، ان کی رینج کیا تھی،کیا وہ پاکستان ساختہ تھے یا دساور سے برآمد  کئے ہوئے تھے، ان کا اسلحہ بارود کون سا تھا، کہاں سے منگوایا گیا تھا،کیا پاکستان ساختہ تھا، ان حملوں میں دشمن کا کتنا جانی اور مالی نقصان  ہوا وغیرہ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب ہمارے کسی ٹی وی چینل پر یا کسی روزنامے میں نہیں دیا گیا اور کوئی تصویر اس ائر سٹرائیک کی بھی نہیں دی گئی۔ ذراسوچئے کہ اس فضائی حملے کا جواب کہاں سے آئے گا، کیا ہوگا اور کب ہوگا؟ ان سوالوں سے بھی ہمیں کوئی آگہی نہیں …… اور ہم پوچھتے ہیں کہ روس۔یوکرین جنگ کی تازہ ترین صورتِ حال کیا ہے!……

فخر الدین عراقی کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو یہ ہے:

بطوافِ کعبہ رفتم بہ حرم گزر نہ دادند

کہ بردنِ دَر چہ کردی کہ درونِ خانہ آئی؟

(ترجمہ: جب میں طوافِ کعبہ کو گیا تو حرم(کعبہ) میں داخل ہونے کا مجھ کو راستہ نہ دیا گیا اور پوچھا گیا کہ کعبے کے باہر رہ کر تو نے کیا کیا ہے کہ اب کعبے کے اندر آنا چاہتا ہے)

ہماری مشکل بھی عراقی سے زیادہ کچھ اور نہیں …… ہم اُس درج بالا پاکستانی فضائی حملے سے بھی بے خبر ہیں کہ جو حال ہی میں افغانستان پر کیا گیا۔ لیکن ”سات سمندر پار“ اس حملے کا پوچھتے ہیں جو روس اور یوکرین میں ہو رہا ہے!

روس کا دشمن سارا (یا ساری)ناٹو ہے۔ ناٹو کا تو کوئی بال بیکا تک نہیں  ہوا۔البتہ روس اور یوکرین کے 12لاکھ فوجی اور سویلین اس تین سالہ جنگ میں کام آ چکے ہیں۔ناٹو والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس طرح روس کی تابِ مزاحمت کو ختم کرلیں گے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ دوسری جنگِ عظیم میں 6سال تک (1939ء تا1945ء) اگر جرمنی نے روس کا کچھ نہیں بگاڑ لیا تھا تو اب جرمنی جو ناٹو کا ایک سرگرم اوربڑا رکن  ہے  وہ روس کا کیا بگاڑ لے گا؟…… ہاں جو حشر 1945ء میں خود جرمنی کا ہوا تھا وہی اب یوکرین کابھی ہو سکتا ہے…… اور یہی اس  روس۔ یوکرین جنگ کا تازہ ترین سبق ہے۔

مزید :

رائے -کالم -