ڈاکٹر صفدر محمود کی علالت اور میرا دُکھ

آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں میں کتنے دُکھ، کرب اور درد کی کیفیت میں مبتلا ہوں۔ ملک کے نامور محقق، مصنف، اُستاد، مورخ اور کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود چند ماہ سے علیل ہیں۔ وہ امریکہ میں کئی ماہ زیر علاج رہنے کے بعد پاکستان واپس تو آ چکے ہیں، لیکن اس حال میں کہ ان کی قوتِ حافظہ اور یادداشت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ وہ کسی کو پہچانتے تک نہیں۔ جب ایک انسان کے اپنے ہوش و حواس پراگندہ ہو جائیں تو اُسے اپنی ذات تک کا علم نہیں رہتا۔ پھر اُسے کسی دوسرے کا ہوش کیا رہے گا۔ ڈاکٹر صفدر محمود علم و آگہی کا ایک سمندر ہیں، لیکن آج اپنی ذات سے بھی بے خبر۔ حالات کا خالق انسان جب خود کسی بیماری کی زد میں آ جائے تو وہ کتنا بے بس ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود اگر صرف ایک شخص کا نام ہوتا تو شاید ان کی بیماری کی کیفیت جان کر میرا دُکھ اتنا گہرا نہ ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ادارے کا نام ہے۔ لوگ حصولِ علم کے لیے کسی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود خود ایک یونیورسٹی ہیں۔ قائداعظمؒ، قیام پاکستان کی تاریخ، علامہ محمد اقبالؒ کی تعلیمات اور پاکستانیت کے موضوع پر نہایت محنت مشقت اور جان مار کر تحقیق کے بعد جتنی معیاری کتابیں، مضامین اور اخبارات میں کالم ڈاکٹر صفدر محمود نے لکھے ہیں وہ ایک فردِ واحد کا نہیں ایک ادارے کا کام معلوم ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ سب کچھ تن تنہا کیا ہے اور یہ کار ہائے نمایاں کوئی غیرمعمولی شخصیت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ قائداعظمؒ یا تاریخ پاکستان کے حوالے سے جب بھی کسی شخص یا ادارے نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی اس کا مدلل جواب تاریخی شواہد کے ساتھ ڈاکٹر صفدر محمود ہی نے دیا۔ اس اعتبار سے وہ تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔
کسی محقق یا مورخ کو تحریک پاکستان اور قائداعظمؒ کے موضوع پر اگر رہنمائی اور روشنی کی طلب ہوتی تو ان کی ہر مشکل اور اُلجھن کا جواب ڈاکٹر صفدر محمود ہی دیتے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا بیماری کے باعث اپنی یادداشت سے محروم ہو جانا میرا ذاتی دُکھ نہیں، بلکہ یہ پوری قوم کے لئے ایک المیہ ہوگا کہ اب ہم رہنمائی، روشنی اور حصولِ فیض کے لئے کس کے دروازے پر دستک دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی اور ڈاکٹر صفدر محمود موجود ہی نہیں اور ڈاکٹر صفدر محمود کے ہوتے ہوئے بھی ہم تنہا ہو جائیں گے۔ اس سانحہ کے بارے میں تو کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اگرچہ ہماری رہنمائی کے لئے ڈاکٹر صاحب کی کتابیں اور اخبارات کی فائلوں میں ان کی تحریروں کی صورت میں بہت کچھ موجود ہے، لیکن جو تسلی جو اطمینان اپنی کسی مشکل، دِقّت اور ذہنی اُلجھن کے وقت ان سے گفتگو کے بعد محسوس ہوتا تھا ڈاکٹر صفدر محمود کی علالت کی وجہ سے اب ہم محروم ہو گئے ہیں۔ مَیں اسی فکر و تردد میں مسلسل گھُلا جا رہا ہوں کہ اب اگر کوئی تحر یک پاکستان اور قائداعظمؒ کے حوالے سے غلط بیانی کرے گا، جھوٹ گھڑے گا تو کون اُس کی زبان خاموش کروانے کے لئے دلیل، ثبوت اور شواہد کے ساتھ ڈاکٹر صفدر محمود کی طرح میدان میں اُترے گا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒکی شخصیت کے بارے میں جب بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو ڈاکٹر صفدر محمود اُس کا ایسا جواب دیتے کہ وہ دانشور پوری پاکستانی قوم کے سامنے جھوٹا ثابت ہو کر ذلیل و رُسوا ہو جاتا۔
خود کو لبرل اور روشن خیال کہلوانے والے بعض دانشور جب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے۔ تو اس کا جواب استدلال کی قوت سے لیس ہو کر ہمیشہ ڈاکٹر صفدر محمود نے ہی دیا ہے کہ قائداعظمؒ کا تصورِ پاکستان ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی پاکستان کا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے تحقیق کی روشنی میں بتایا کہ قائداعظمؒ نے ایک دفعہ نہیں سیکڑوں بار یہ فرمایا کہ پاکستان کے دستوری اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ قائداعظمؒ نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں کوئی قانون اسلام سے متصادم نہیں بنایا جا سکتا۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ دونوں کا یہ تصور تھا کہ پاکستان ایک جدید اسلامی اور جمہوری ریاست ہو گی، جس طرح مسلمانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح پاکستان کو بھی اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا، جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ان کی زبانیں بند کرنے کے لئے قائداعظم کا صرف یہ ایک بیان ہی کافی تھا،جو 10 جولائی 1947ء کو لاہور کے پیسہ اخبار میں شائع ہوا تھا۔ یہ حوالہ مجھے ڈاکٹر صفدر محمود اور پروفیسر احمد سعید نے بتایا تھا۔ قائداعظم نے صوبہ سرحد کے خان عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس پروپیگنڈا کی پرزور تردید کی کہ پاکستان کا مرتب کردہ آئین شریعت کے مطابق نہیں ہوگا۔ قائداعظم نے یہ دلیل بھی دی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی،جو مسلمانوں کی بھاری اکثریت پر مشتمل ہو گی جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی تصورات کو وہ کیسے نظرانداز کرے گی۔ قائداعظم نے خان برادران کے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت اور قرآنی اصولوں کو نظرانداز یا فراموش کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب اپنی نظریاتی راست فکری اور پاکستان کے سچے عاشق ہونے کے باعث پوری پاکستانی قوم کے محسن ہیں۔ ذاتی طور پر مجھ پر ان کا یہ احسان عظیم ہے کہ ان کی راہنمائی ہی میں مجھے اپنی دو کتابیں ”میرے قائد کا نظریہ“ اور ”جناح، اسلام اور پاکستان“ تحریر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ قائداعظمؒ ہمارے عظیم ترین محسن ہیں۔ انہوں نے اپنی صحت، تمام تر آسائشاتِ زندگی، حتیٰ کہ اپنی جان، مال سب کچھ قیامِ پاکستان پر قربان کر دیا اور ڈاکٹر صفدر محمود کا یہ افتخار ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی قائداعظم کے عشق میں گزار دی۔ اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی اور دل کی کامل توجہ کے ساتھ دعا کرتا ہوں اور پوری پاکستانی قوم سے بھی درخواست گزار ہوں کہ ہم سب مل کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کریم کے حضور ڈاکٹر صفدر محمود کی صحت یابی اور سلامتی کے لئے دعا کریں۔ ربِ ذوالجلال پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ڈاکٹر صفدر محمود کو تادیر ہماری راہنمائی کے لئے سلامت رکھے۔ آمین
یہاں میں پاکستان کی نوجوان نسل سے یہ درخواست کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر صفدر محمود کی چند ماہ پہلے شائع ہونے والی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ کا مطالعہ ضرور کریں۔ قائداعظم اور تخلیق پاکستان کے مخالفین کے تمام تر الزامات اور پھیلائی گئی گمراہ کن باتوں کا مستند حوالوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے مدلل جوابات پڑھ کر آپ کو بھی ڈاکٹر صفدر محمود سے عشق ہو جائے گا۔