خسرہ بے قابو کیوں ہوا؟
موت ایک اٹل حقیقت ہے ،اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کا وقت مقرر ہے اور جو پیدا ہوا اسے ایک دن جانا ہے مگر ایسی موت جو اچانک آجائے اور اس کا سبب کوئی حادثہ بنے یا مرض، مرنے والوں کے چاہنے والوں کو ایسی موت زیادہ تڑ پاتی ہے،سسکاتی ہے، اور مرنے والے کے آخری لمحات کا منظر بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے وطن عزیز میں ایسی اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے دنیا ایسی اموات سے اپنی قوم کے بچوں بڑوں کو بچانے کے لئے شبو روز کوشاں ہے دوسری جانب ہم ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو اور محکموں کے اشرافیہ کو ہوش تب آتا ہے جب 7 سو ”زندگیاں“ کھو جاتی ہیں ایسی اموات غیر طبعی اموات کے زمرے میں آتی ہیں۔ دنیا کے سائنسدانوں اور تحقیق دانوں کا دعوی ہے ایسی موت کی شرح میں نا قابل یقین کمی کی جاسکتی ہے ۔ بن روئے ماں دودھ نہیں دیتی۔ اگر اس کو اور بھی آسان کرلیا جائے تو ایسے کہہ لیں کہ ماں اس وقت تک اپنے بچے کو دودھ نہیں دیتی جب تک بچہ چیخ و پکار نہ کرے سو پاکستان کے حکمرانوں اور اشرافیہ کہلانے والے محکموں کے سربراہان کی یہ عادت ہی نہیں بن گئی بلکہ انہوں نے کلچر بنالیا ہے کہ جب تک 5/7 سو ”بندے“ نہ مرجائیں تب تک ایکشن شروع نہیں ہوتا نہ حکومتیں حرکت میں آتی ہیں اور نہ ہی پاکستانیوں کی تقدیر سے کھیلنے والا اشرافیہ، دوسری طرف اقوام عالم ہیں کہ ان کے ہاں ایک چھینک سے بھیڑیا بلی کا بچہ بھی مر جائے تو اس کی تحقیق ہوتی ہے تشخیص ہوتی ہے اور موت کی وجوہات معلوم کئے بغیر وہ چین سے نہیں بیٹھتیں،وہ موت کے ذمہ داروں کا تعین کرکے آئندہ کے لئے اپنی قوم کی زندگیوں کو محفوظ بنالیتے ہیں مگر ہماری بدقسمتی دیکھ لیں کہ جہاں اس وقت تک ہمارے حکمران جاگتے ہیں نہ محکموں
کا اشرافیہ جتنی دیر کسی بیماری مرض یا وائرس سے 7 سو بندے نہیں مرجاتے، کئی ماﺅں کی گود سونی نہیں ہوجاتی بہنوں سے بھائی، ماں سے اولاد، باپ سے بچے ، بھائی سے بہن نہیں چھین جاتے کوئی ایکشن نہیں ہوتا، بچوں کے لئے ”قاتل“ ثابت ہونے والے خسرہ سے اموات اور کیسز سامنے آنے کی اطلاعات دسمبر 2012ءمیں آنا شروع ہوگئی تھیں مگر محکمہ صحت کے ”کرتا دھرتا“ سمیت سب نے آنکھ چرائی اور ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کے تحت ”ادھر اُدھر“ دھیان دیتے رہے کسی نے اس کو سنجیدگی سے لیا نہ اس کی پیچیدگی پر غور کیا ،چاہیے تو یہ تھا کہ اس وقت سامنے آنے والے خطرات بھانپ لئے ہوتے اس کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کئے جاتے مگر کسی نے کچھ نہ
کیا اب جب لاہور کے طول وعرض ہی نہیں پنجاب کو خسرے کا وائرس اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے تو ہم نے خسرے کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے لنگوٹ کس لیا ہے۔ ماہرین صحت بتاتے ہیںکہ خسرہ ایک قابل علاج مرض ہے مگر اس کے حملے سے مریض کو اور خصوصا بچوں کو بچانے کے لئے واحد حل ویکسی نیشن ہے جو ہم پچھلے کئی سالوں سے کررہے ہیں مگر اس کے نتائج سامنے نہیں آسکے اس کے لئے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے باقاعدہ ٹارگٹ اور اہداف مقرر ہوئے جس کے لئے 2000ءتک خسرے سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد کمی کرنا تھی۔ جبکہ دوسرا ہدف مئی 2010ءمقرر ہوا جس میں خسرے سے ہونے والی اموات میں 100 فیصد کمی کرنا تھی مگر ہوا کیا ،جو قوم نے دیکھ لیا اہداف تو حاصل نہ ہوسکے البتہ اموات میں کئی فیصد اضافہ ہوگیا۔جس کی بنیادی وجہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا نہ لگایا جانا ہو سکتی ہے اگر ٹیکے لگائے گئے ہیں تو دوائی کی صحت پر کئی سوال اٹھتے ہیں؟ اگر دوائی درست نہیں؟ تو وہ درجہ حرارت جس پر دوائی نتائج دیتی ہے یہ ٹھیک نہیں ہو گا ؟اگر سب کچھ ٹھیک تھا تو پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ محکمہ صحت جویومیہ بنیادوں پر دہاڑی دار ،غیر تربیت یافتہ عملہ ،بے روزگار خواتین و مردوں کی خدمات قطرے پلانے یا ٹیکے لگانے کے لئے حاصل کرتا ہے۔ آیا ان کو لاعلم ،غیر تربیت یافتہ عملے کا یہ نتیجہ تو نہیں ہے؟ جہاں تک لاہور میںبھڑکی ہوئی خسرے کے مرض کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے لاہور میں جو 8روزہ مہم چلائی گئی اس میں ٹارگٹ 30لاکھ بچے تھے۔ جنہیں خسرے سے بچاﺅ کے لئے ٹیکہ لگائے جانا تھے مگر محکمہ صحت کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پچاس فیصد بچوںکو ٹیکے لگائے جا سکے مگر سیکرٹری صحت فرماتے ہیں کہ اس مہم میں 25لاکھ بچوں کو ٹیکے لگائے گئے صرف 5لاکھ بچے اسی سے محروم رہ گئے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ رہ جانے والے پھولوں کی زندگیاں بچانے کے لئے انہیں تلاش کیوں نہ کیا گیا جس کا جواب خادم اعلیٰ سیکریٹری صحت یا اس مہم کے ذمہ داروں سے لے سکتے ہیں پاکستان میں یہ کیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہ جو جتنا بڑا بدمعاش ہوتا ہے اسے اتنا ہی بڑا مقام نصیب ہوتا ہے غریب کی موت وہ حادثے سے ہو آفت سے ہو، اچانک کسی وائرس سے ہو، ڈرون حملے سے ہو، دہشتگردوں سے ہو، ٹارگٹ کلرز سے ہو کیا یہ سب کچھ غریب کے مقدر میں ہے ”ادھر“ دیکھ لیں کہ مختلف اقسام کے وائرس اور وائرل جن میں خسرے کا باعث بننے والا وائرس بھی شامل ہے ،کی روک تھام کے لئے ملک بھر میں ای پی آئی کا شعبہ موجود ہے اس شعبے کے تحت مختلف نیشنل پروگرام چلائے جارہے ہیں جن کے ذمے ایسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے قبل ازوقت اقدامات کرنا ہے یہ پروگرام عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے چل رہے ہیں جن پر سالانہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کا بجٹ صرف ہورہا ہے صوبائی ہیڈ کواٹر ،ڈویژنل لیول اورضلعی سطح پر بھی یہ پروگرام ای پی آئی ڈائریکٹرز اور ای ڈی اوز کے ماتحت چلائے جارہے ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے ماتحت صوبائی ڈائریکٹر ای پی آئی کا شعبہ قائم ہے اس شعبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ بھر میں ضلع کی سطح پر ای
ڈی اوز، ڈی ایچ اوز کی مدد سے ویکسی نیشن اور قطرے وغیرہ پلانے کی مہم کو یقینی بنائے مگر پنجاب میں دیکھا جائے، کئی سال تک ”ای پی آئی“ کے شعبہ کا سربراہ رہنے والے ڈاکٹر تنویر کو نگران حکومت نے صوبہ میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ لگا دیا اور اس سے پہلے ڈائریکٹروں کو بھی نا اہلی اور لوگوں کے بچوں کو ان کی غفلت کی بھینٹ چڑھانے میں خاموش کردار ادا کرنے والوں کو اہم اور پرکشش عہدوں پر براجمان کر دیا گیا ہے درحقیقت یہ وہ لو گ ہیں جن کی نااہلی ،غفلت ،لاپرواہی ،سالہہ سال سے خانہ پوری اور ڈنگ ٹپاﺅ پالیسیوں کی وجہ سے قوم کے سو سے 200سے زائد بچے موت کی آغوش میں چلے گئے مگر ان بچوں کی موت کے براہ راست ذمہ دار ڈائریکٹر ای پی آئی کو ڈی جی ہیلتھ کا عہدہ بطو ر انعام دینے والوں سے حسا ب کون لے گا؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب خسرہ سے بے وقت موت مرنے والے ہر بچے کی ماں کی زبان عام پر ہے ۔ اگرچہ خادم اعلی پنجا ب نے حلف اٹھاتے ہی ڈینگی کے خلاف چلائی جانے والی اپنی مہم کی یاد خسرہ کے خلاف بھی تازہ کرنے کا اعلان کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ انعام پانے والوں کو کیا ”انعام“دیتے ہیں اور خسرے کی 53لاکھ ”ڈوز“ ای ڈی او ہیلتھ لاہور کے ”خزانے“ میں ذخیرہ ہونے کے باوجود ٹیکے لگانے کی مہم بروقت شروع کرکے بچوں کی زندگیاں خسرے سے محفوظ نہ کرنے والوں سے حساب لیا بھی جاتا ہے یا ماضی کی طرح ان 200بچوں کی موت کا کیس بھی داخل دفتر کردیا جاتا ہے؟