شہادت امام حسین ؓ کاعظیم پیغام

میدان کربلا میں دین حق کی حفاظت، خلافت کے احیاء اور اہل ایمان پر بادشاہت و ملوکیت کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیادت اور نظام کے قیام کے لئے نواسہئ رسول ؐاور خانوادہئ رسول ؐنے قربانی دی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا“ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓنے روایت کیا کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے لئے دعا فرمائی:”اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما اور جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے حقیقت میں مجھ سے محبت کی“۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بھی روایت کرتے ہوئے آپ ؐسے یہ الفاظ منقول کئے: ”اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت فرما، جوان سے بغض رکھے تو ان سے بغض رکھ... حضرت علی ؓ فرماتے ہیں:”میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، حضور اکرم ﷺنے ایک چادر بچھا رکھی تھی اس پر حضور اکرم ﷺ،میں، حضرت فاطمہ ؓ،حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سب بیٹھ گئے۔
پھر حضور اکرم ﷺنے چادر کے چاروں کونے پکڑ کر ہم اسلام پر گرہ لگادی۔ پھر یہ دعا فرمائی ”اے اللہ جیسے میں ان پر راضی ہوں تو بھی ان پر راضی ہو جا۔ (طبرانی 9/69) اس خانوادے کے عظیم رکن حضرت امام حسین ؓ کا حق اور فرض بنتاتھا کہ جب اسلام کی فکر، سیاست، خلافت، سماجی واخلاقی قدریں اور دینی اقدار پامال ہو رہی تھیں، سارے نظام بابرکت کا رخ موڑا جارہاتھا تو یزید کی بیعت کرنے کی بجائے حق کے علم کو بلند کیا جاتا تاکہ اسلام کی فکر، سیاسی، سماجی اور دینی حیثیت کو غلط راستے سے بچا کر حق کی راہ پر قائم رکھا جاتا۔ اسی جرم کی پاداش میں یزید نے نشہ اقتدار میں سب ہوش کھو کر امام عالی مقام اور خاندان پیغمبر زماں، خانوادہئ رحمۃ اللعالمین کو شہید کیا،صرف اپنی ذات کی بالادستی اور ناحق اقتدار کے لئے ۔ امام عالی مقام کی شہادت ایک ایساالمناک اور دردانگیزواقعہ تھا کہ اُمت صدیوں سے آنسو بہانے کے باوجود اُن کی شہادت پر آج بھی افسردہ اور غم ناک ہے۔ سینکڑوں برس گزرجانے کے باوجود یہ زخم،غم اور واقعہ تازہ ہے.... ”ابو الکلام آزادؒ کے بقول امام حسین ؓ کے جسم خونچگاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم الم کا سیلاب بہا چکی ہے، شہادت امام حسین ؓ اُمت مسلمہ کے لئے ایک عظیم درس ہے۔ میدان کربلا میں جیت اور غلبہ تو یزیدی سپاہ کو ہوا تھا، جبکہ ہار،ہزیمت اور شہادت سیدنا امام حسین ؓ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کے حصے میں آئی تھی، لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ امام عالی مقام ؓ ہار کر بھی جیت گئے، شہادت دوام اور رہتی دنیا تک کے لئے عزم و استقلال کی علامت بن کر آج مسلمانان عالم کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
اسلام میں شہدائے حق کاسلسلہ طویل اور دراز تر ہے، لیکن معرکہ حق وباطل اور دنیا ئے شہداء میں حضرت امام حسین ؓکامرتبہ و مقام کئی اعتبار سے ممتاز اور نمایاں ترین ہے۔ امام عالی مقام نے اپنی سپاہ کابیشتر حصہ ”میدان کربلا“ میں راہ حق میں شہید کروانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے بیشتر مرد وزن اپنی آنکھوں کے سامنے دین کی سربلندی کی خاطر قربان کردیئے اور خود دشمن کی صفوں کو تن تنہا چیرتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے۔ امام جو اں مردی اور بہادری سے لڑتاہوا دین اسلام اور شعائر اسلام کی سربلندی کے لئے بڑے عزم و استقلال سے جام شہادت نوش کر گیا۔ شہید ان حق اور فدائیان اسلام ہمیشہ معرکہ حق وباطل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اسلام کی سربلندی نگاہ حق پرست میں جان سے عزیز اور اہم تر ہوتی ہے۔
حضرت امام حسین ؓسید اولالین ولآخرین ﷺکی دینی، روحانی اور خونی وراثت کے امین تھے۔ وہ خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ اور خلیفہ راشد حضر ت علی ؓ کے فرزند ارجمند اور اُمت مسلمہ کے روحانی امام اور پیشوا تھے۔ حسب و نسب، اعمال، افعال،کردار،علم و فضل اور زہد و ورع میں اُمت مسلمہ کے لئے مینارہئ نور اور منبع رشد و خیر تھے، لیکن بد قسمتی سے اُمت مسلمہ کا ایک خاص طبقہ امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم ترین قربانی اور شہادت کو ایک دوسرے رنگ اور زاویے سے دیکھتاہے، جبکہ جذبہئ اسلام سے سرشار ہر مجاہد، بلکہ دنیابھرکی تمام حریت پسند ہستیاں انہی سے مردانگی اور بہادری کادرس لیتی ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں ظلم و ستم، اور جبر و تشدد جیسے ریاستی ہتھکنڈے تسلیم کرنے کی بجائے کٹنا، مرنا اور راہ حق سے منحرف نہ ہونا ہی حیات جاودانی ہے۔
بعض لوگ بڑی سادگی یا ہوشیاری سے عقل و دانش کا لبادہ اوڑھ کر تاریخ اسلام کے اس اہم ترین واقعہ میں غیر معقول، بلکہ معکوس طرز گفتگو اور استدلال اختیار کرتے ہیں۔ غیر سنجیدہ اور بے اعتبار و بے بنیاد روایات کاسہارا لے کر ”حادثہء کربلا“کے ضمن میں اہانت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ایسے دانشور عقل و فکر سے عاری، روایت اور درایت سے بیگانہ ہیں، یا فطری رجحان کے باوجودان کی علمی وفکری جو لانیاں ان کا ساتھ نہیں دیتیں اور وہ اس عظیم اور اہم ترین واقعہ کی حقیقی سنگینی کااحساس وادراک کرنے سے عاری ہیں۔ جس دور کی سپاہ اور ان کے تیر و تلوار یں امام حسین ؓ ایسے عظیم انسان سے انصاف نہ کرسکیں، اس عہد کی بیشتر روایات اور قلم کی ضو فشانیاں کیونکر اور کیسے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کے متعلق انصاف کے تقاضے پورے کرسکتی ہیں۔ حضرت حسین ؓ سے عقیدت و محبت کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو سرفروشی اور جاں نثاری کے جذبات سے سرشار ہوکر خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے ہی کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔کربلا کی داستان یہی سبق دیتی ہے کہ مردہ یزیدپر ہی ماتم نہیں زندہ یزیدوں کے مقابلے پر کھڑے ہونے کے لئے یہی پیغام ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی زندگی باطل کے مقابلے میں جم کر کھڑے ہونے اور حق کے لئے جان عزیز کی شہادت دینے میں مضمر ہے،
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
آج دجلہ اور فرات کے پڑوس میں پھر باطل نے عالم اسلام کو للکارا ہے اور نواسہ رسول حضرت حسین ؓسے پیار کرنے والوں کے لئے پھر ایک موقع فراہم ہواہے کہ وہ حق کی طرف اپنی جانیں لڑا دیں اور یہ ثابت کردیں کہ حسین ؓ سے عقیدت رکھنے والے حسین ؓ کی یاد میں صرف آنسو بہانا ہی نہیں جانتے، بلکہ حق اور آزادی کی خاطر ان کے اسوہ پر چلنے اور گردنیں کٹانے کاحوصلہ بھی رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم جان دینے کے لئے تیار ہوتی ہے، باعزت زندگی کاحق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ خداگواہ ہے کہ راہ حق میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے،بلکہ انہی لوگوں کو اصل زندگی حاصل ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں“۔ (البقرۃ)
(خلافت و ملوکیت،مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ،متن اربعین امام حسین ؓ،مولانا عبداللہ دانش،مضمون مولانا یوسف اصلاحی، حیاۃ الصحابہ ؓ:مولانا یوسف کاندھلوی سے استفادہ کیاگیا۔)