تاریخ جماعت ِ اسلامی کا ایک فراموش شدہ باب

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی پہلی تحقیقی کاوش ”الجہاد فی الاسلام“ تھی جو 1926ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ایک تو انہوں نے اسلام، ہندومت، عیسائیت اور یہودیت کا فلسفہ جنگ بیان کیا، دوسرے، پہلی عالمی جنگ میں بڑی طاقتوں کا مکروہ کردار بے نقاب کیا۔ 1933ء میں مولانا نے ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ کی ادارت سنبھالی اور امت مسلمہ کے مسائل و معاملات پر کھل کر لکھنا شروع کیا۔ ان تحریروں میں انہوں نے مسلمانوں کے زوال کا بڑا سبب تحقیق سے بیگانگی اور لا تعلقی بتایا مسلمان اپنے اسلاف کے افکار و خیالات کے محض مقلد بن کر رہ گئے۔ ان کے لئے وقت اپنے ساتھ کئی نئے چیلنج لے کر آیا لیکن انہوں نے چونکہ سوچنا اور تحقیق کرنا بند کر دیا تھا، اس لئے وہ دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔ اس حوالے سے مولانا نے ایک مضمون ”ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب“ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے شمارہ ستمبر 1934ء میں شائع کیا، اب وہ مولانا کی کتاب ”تنقیحات“ میں شامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا:
”ذہنی غلبہ و استیلاء کی بنا در اصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد و متبع بننا پڑتا ہے، اس کے افکار و معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد و محقق قوم کے طاقتور افکار و معتقدات کا سیلاب ان کو بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بوتا نہیں رہتا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حسن اور قبح، نیکی اور بدی، غلط اور صحیح کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا، اور قصداً یا اضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہو گئے جب انہوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا، جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انہوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے استعفا دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس میں آگے بڑھیں انہوں نے غور و فکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا، کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کئے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی رہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔“ (تنقیحات صفحہ 9-8:)
مولانا کا تحقیقی سفر جاری رہا۔ انہوں نے مسئلہ ملکیتِ زمین، پردہ، مسئلہ قومیت، ضبط ولادت، سود، حدیث کی قانونی و آئینی حیثیت اور دیگر کئی موضوعات پر بہت اچھی تحقیقی کتابیں لکھیں۔ مولانا نے مسلمانوں کو جمود اور تقلید کی فضا سے نکالنے کے لئے چودھری نیاز علی کی ایک پیشکش قبول کر لی۔ چودھری صاحب نے پٹھانکوٹ میں ایک وسیع قطعہ اراضی ایسے ادارے کے قیام کے لئے وقف کیا، جس کا مقصد جدید مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پیش کرنا تھا۔ پہلے مولانا دکن سے دارالاسلام منتقل ہوئے، پھر چودھری صاحب سے کچھ اختلافات کی بنیاد پر لاہور چلے آئے لیکن جلد ہی دوبارہ دارالاسلام لوٹ گئے۔اسی دوران میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کی چھ صوبوں میں حکومتیں قائم ہو گئیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ابتلاء اور آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ کانگریسی لیڈروں نے متحدہ قومیت کے نظریئے کے واسطے سے مسلمانوں کو ہندی قومیت کے جال میں پھانسنے کے لئے ماس کانٹیکٹ (عوامی رابطہ) مہم شروع کر دی۔
ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ حکومتی طاقت سے ناروا رویہ اختیار کیا، دوسری طرف ان سے اسلامی تشخص چھیننے کے اقدامات شروع کر دیئے۔ مولانا نے اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل شدید خطرات میں دیکھ کر اپنا مشہور سلسلہ تحریر ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ کے عنوان سے پیش کیا۔ بعد میں یہ تحریری کاوش تین جلدوں کی صورت میں شائع ہوئی۔ اسی سے متاثر ہو کر 1941ء میں 75 افراد مولانا کی رہنمائی میں ”جماعت اسلامی“ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے۔ مرکزی دفتر دارالاسلام ہی میں قائم ہوا لیکن چھ سال بعد ہی برطانیہ نے ہندوستان آزاد کر دیا۔ کانگریس نے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے سے گورداسپور کا ضلع بھارت میں شامل کروا لیا۔ چونکہ یہ مسلم اکثریتی ضلع تھا اس لئے اسے پاکستان میں شامل ہونا تھا لیکن پنڈت نہرو اور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ نے ایسا ہونے نہ دیا۔ ناچار مولانا مودودیؒ کو دارالاسلام کے دیگر باسیوں کے ساتھ لاہور منتقل ہونا پڑا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد اس خطرے کے تحت کہ کہیں پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ نہ بنا دیا جائے، مولانا اور ان کی جماعت نے اسلامی دستور کی تشکیل و تنفیذ کے لئے جدوجہد شروع کر دی یہ اسی جدوجہد کا ثمر تھا کہ تین دستور بنے مگر ہر ایک میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ہی قرار دیا گیا۔ یہ مولانا اور ان کی جماعت کی بہت بڑی کامیابی تھی لیکن المیہ یہ ہوا کہ تحقیق کا راستہ طاق نسیان کی زینت بن گیا اور انتخابی سیاست کی غوغا آرائی شروع ہو گئی۔
حال ہی میں ایک کتاب ”تصریحات“ کے عنوان سے راقم الحروف کی نظر سے گزری ہے جسے جناب سلیم منصور خالد نے مرتب کیا ہے۔ یہ اصل میں مولانا کی وہ 62 تقریریں ہیں جن کے مخاطب اسلامی جمعیت طلبہ کے یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان ہیں۔ پہلی تقریر 1950ء کی ہے جو جمعیت کے سالانہ اجتماع (منعقدہ لاہور) میں کی گئی اور آخری گفتگو 1979ء کی ہے جو انہوں نے امریکہ جانے سے قبل جمعیت طلبہ کے رہنماؤں کے سامنے کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ مولانا نے قیام پاکستان سے لے کر تادمِ آخر اپنی کسی گفتگو اور خطاب میں طلبہ کو کہیں احساس نہیں دلایا کہ وہ ریسرچ کا راستہ اختیار کریں تاکہ اس نظام کا سائنسی تجزیہ بھی کیا جا سکے، جس کو جڑ سے اکھاڑنے کا ایک زمانے میں مولانا نے عزم باندھا تھا۔ ریسرچ کی طرف سے غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی میدان میں مسلمان اپنے ماہرین پیدا نہیں کر سکے۔مزید یہ ہوا کہ مولانا کے بعد جن اصحاب نے باری باری امارت کی ذمے داریاں سنبھالیں انہوں نے بھول کر بھی کبھی تحقیق کا نام نہ لیا۔
مولانا کے بعد جماعت کے پہلے امیر، میاں طفیل محمد ایل ایل بی تھے، ان کے کریڈٹ پر صرف ایک کتاب ہے وہ بھی حضرت داتا گنج بحشؒ کی کتاب کشف المحجوب کا اردو ترجمہ ہے۔ دوسرے امیر قاضی حسین احمد کی تعلیم ایم اے جغرافیہ تھی، ان کے ذہن پر اپنے سارے دورِ امارت میں جہاد افغانستان غالب رہا۔ انہیں بھی علم و تحقیق سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔تیسرے امیر سید منور حسن ایم اے سوشیالوجی تھے اور وہ خاصا عرصہ ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کے ڈائریکٹر بھی رہے، لیکن کوئی ایسی علمی کاوش منظر عام پر نہ لا سکے جو اس مظلوم و مقہور ملت اسلامیہ کو بیدار کر دیتی موجودہ امیر کی تعلیم ماشاء اللہ ایم اے ایجوکیشن ہے لیکن پڑھنے لکھنے کا سرے سے کوئی ذوق نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید روزانہ محض تیز تیز سیاسی بیانات دینے سے انقلاب آ جائے گا۔
مجھے یہ گزارشات اس لئے سپرد قلم کرنی پڑی ہیں کیونکہ جماعت اسلامی سقوط مشرقی پاکستان سے لے کر اب تک کئی اہم مواقع پر ایسے فیصلے کر چکی ہے جن کے نتیجے میں بالآخر اس کا ووٹ بینک تشویشناک حد تک متاثر ہوا ہے لیکن اسے اپنی حیثیت بحال کرنے کی کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی۔ خدا کرے کہ اُسے ”تحقیق“ کا فراموش شدہ سبق یاد آ جائے اور وہ اپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے۔