یومِ دفاعِ پاکستان اور جی سی یونیورسٹی لاہور

یومِ دفاعِ پاکستان اور جی سی یونیورسٹی لاہور
یومِ دفاعِ پاکستان اور جی سی یونیورسٹی لاہور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قانون فطرت ہے کہ ہر مخلوق اپنے خطے، علاقے، گھر، گھونسلے اور خانہ ولانہ کی حفاظت و نگہداری کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے پرندے، اپنے گھونسلوں اور بچوں کی خاطر، بڑے بڑے جانوروں سے لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ تمدنی  و انسانی تاریخ بھی ایسے بے شمار واقعات سے بھری ہوئی ہے اور لازم بھی ہے کہ ”نگہدار از دشمنان خانہ ولانہ ات“۔ پاکستان ایک مقدس امانت ہے جس کی بنیاد ہی ایک مقدس نظریہ پر رکھی گئی اور خالق تصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے تو واضح طورپر کہہ دیا تھا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی

اس لئے اس کے حصول کی جدوجہد و قربانیاں اس بات کی متقاضی  ہیں کہ ہر فرد جو کہ ملت کے مقدر کا ستارہ و نگہبان ہے اس کے نظریہ کی خاطر اپنے حسن و عمل سے اس وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں رہے اور متفکر رہے کہ 

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

جی سی یونیورسٹی لاہور (گورنمنٹ کالج لاہور) نے اپنے قیام اور ابتداء سے ہی اعلیٰ علمی و ادبی اقدار کے ساتھ ساتھ ملکی و غیر ملکی سیاسی و سماجی سطح پر بھی اعلیٰ روایت کا امین ہے۔

یومِ دفاع 6ستمبر کے موقع پر مجھے میرے داداپروفیسر صوفی غلام مصطفے تبسم کے خصوصی حوالے سے گفتگو اور تجلیل و تقریم کے سلسلے میں دعوت دی گئی جس کے لئے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور خصوصی طور پر وائس چانسلر گورنمنٹ کالج (جی سی) یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر کی شکر گزار ہوں۔ صوفی تبسم نے 1931ء سے 1954ء تک کا زمانہء تدریسی فرائض انجام دینے میں گزارا وہ صدر شعبہ فارسی اور صدر شعبہ ء اردو رہے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج کے لئے بے انتہا خدمات  سرانجام دیں بلاشبہ گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ علمی و ادبی زمانہ اپنے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ دور ڈی جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری سے پہلے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ہر نئے آنے والے وائس چانسلرز اس روایت کو آج بھی ویسے قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ بشیر بھی انہی روایتوں کی امین ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا ہر طالب علم اس پر بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ صوفی تبسم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے زبان و بیان کے حوالے سے جواں نسلوں کی آبیاری کرتے رہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے محترم اساتذہ نے بھی ملکی خدمات میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اور 6ستمبر 1965ء کی جنگ میں ہماری افواج نے ایسی مارکہ آرائی کی جو رہتی دنیا تک ایک مثال بنی رہے گی۔ صوفی تبسم کے جنگی قومی ترانے آج بھی ہمارے جذبوں کو تر و تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ 6ستمبر 1965ء کو ہمارے دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا مگر ہماری بہادر نڈر اور دلیر افواج پاکستان نے نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کئے ہماری پاک افواج نے جس طرح جانوں کے نذرانے پیش کئے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستانی عوام کی طرح ہمارے گھر میں سب ایک نئے جذبے کے ساتھ اپنے ملک پاکستان کی محبت میں سرشار تھے جن میں میرے دادا صوفی تبسم بھی بے حد بے چین و پریشان نظر آتے انہیں اپنے فوجی جوانوں کی فکر تھی جو بارڈر پر بہادری کے کارناموں سے نئی تاریخ رقم کررہے تھے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے بے چینی میں ریڈیو فون کیا،تیارہوئے اور گاڑی آئی اور وہ ریڈیو پاکستان لاہور چلے گئے۔ شام کا وقت قریب تھا ریڈیو آن ہوا تو صوفی تبسم کا یہ ترانہ وہاں گونج رہا تھا۔

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں 

آج تک دیاں تینوں سارے جگ دِیاں اَکھاں 

موسیقی، لکھنے کا عمل اور ملکہ نور جہاں کی گائیکی بیک وقت ظہور پذیر ہوئے پھر ایسا ہوا کہ روزانہ کئی ترانے ریکارڈ ہونے لگے اور افواجِ پاکستان کے حوصلے بڑھاتے رہے۔ایک وقت ایسا آیا جب دشمن بھارت نے چونڈا کے مقام پر ٹینکوں سے حملہ کیا وہاں گھمسان کی جنگ ہوئی۔میرے دادا صوفی تبسم بے چین ہوئے، آنکھیں نم ناک ہوئیں، قلم ہاتھ میں پکڑا اور کچھ لکھنے لگے۔ شام کو فوجی بھائیوں کے پروگرام میں لازوال قومی ملی نغمہ نشر ہوا جو ملکہء ترنم نورجہاں کی سُریلی آواز میں کچھ یوں تھا:

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

توں لبھنی ایں وچ بازار کُڑے

صوفی تبسم نے شہیدوں کی جرائت اور بہادری پر انہیں سلام پیش کیا تھا ہمارے ان شہیدوں کے نام رہتی دنیا تک سنہری حروف میں لکھے جاتے رہیں گے، بخاری آڈیٹوریم ہال میں خاموشی تھی میں اور کچھ نہ کہہ سکی اس تقریب میں میرے سامنے کثیر تعداد طلبہ کی تھی۔طلبہ کے ساتھ فیکلٹی اور سینئر اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد (پروفیسر امریطس) پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ ڈین فیکلٹی آف لینگویجز، اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ، پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ حسن، پروفیسر فوزیہ غنی اور ڈاکٹر احمد رضا خان (جن سے بعد از تقریب بھی گفتگو رہی) نے شرکت کی۔

دیگر مہمانانِ اعزاز سے بریگیڈیئر جاوید اور وائس ایئر مارشل (ر) انور محمود نے خطاب کیا۔

بریگیڈیئر جاوید نے طلبہ کو یوم دفاع کے حوالے سے نظریاتی دفاع کے تحفظ کے فلسفے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اصل دفاع اس نظریہ کا ہے جس کی وجہ سے یہ مملکت وجود میں آئی اور اسی وجہ سے دنیا کی مختلف مقتدر صہیونی قوتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عملی اور سائنسی و تحقیقی سطح پر اس مقام اور طاقت و قوت پر پہنچ جائیں کہ ہم کو کسی کا دستنگر نہ بننا پڑے بلکہ ہم باقی مظلوم مسلمانوں کے دستِ نگر بن سکیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم اپنے اپنے شعبے اور احاطہ کار میں پوری دیانت داری اور لگن سے کام کریں اور یہ بات میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ نے کس طرح عظیم الشان سلطنت کے لئے اور اپنے مستقبل کے لئے کیا کرنا ہے۔ جناب انور محمود صاحب نے جی سی کی تاریخ اور روایات کے حوالے سے جب علامہ محمد اقبالؒ کو مرشداعظم کہا تو تقریب میں شریک مجھ سمیت ہر شخص کو مزہ و سرور آ گیا۔ انہوں نے نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ پاکستان کی فضائی حدود کی محافظ پاکستان ایئر فورس کی جرأت و بہادری کی توصیف کرتے ہوئے ایم ایم عالم اور دیگر مشاہیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اصل تعریف کے حقدار تو وہ ٹیکنیکل افراد بھی ہیں جو پیچھے بیٹھ کر ایم ایم عالم جیسے دلیر ہوابازاروں کی رہنمائی کرتے ہیں جو ایک منٹ میں دشمن کے پانچ جہاز گرا دیتے ہیں۔ نیز انہوں نے طلبہ کو فکرِ فردا کی تلقین کی۔

آخر میں پروفسیر ڈاکٹر شازیہ بشیر وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی نے کلمات تشکر کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ کے اشعار کے ساتھ دلوں کو جذبہء حمیت سے سرشار کر دیا۔تقریب میں جی سی یونیورسٹی لاہور کے ڈاکٹر نذیر احمد میوزک سوسائٹی کے کلامِ اقبال اور علمی نغمات، فضاؤں میں گونج گونج کر اپنی سریلی آواز و مہارت کی داد لیتے رہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -