اللہ کی بارگاہ میں کامیابی

اللہ کی بارگاہ میں کامیابی
اللہ کی بارگاہ میں کامیابی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عالمی حالات کیا ہیں، ملکی حالات کیا ہیں، ان سب کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ بحیثیت انسان ان سے باخبر رہنا اور ان پر رائے قائم کرنا ہماری جبلت میں شامل ہے، لیکن اصل اہمیت انسان کی اپنی ذات کی ہے۔ آپ جس زاویہ سے بھی دیکھ لیں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے اور اس میں بھی سب سے اہم بات اپنی نجات ہے کہ خود کو اللہ کی بارگاہ میں کامیاب کیسے کیا جائے؟ملکی اور بین الاقوامی حالات جتنے بھی اچھے ہوں،اگر میری اپنی زندگی، میرا اپنا لائحہ عمل اللہ کے ہاں میری نجات کا موجب نہیں، تو مَیں ناکام ہوں چاہے دُنیا کتنی بھی ترقی کرے اور جتنا بھی امن قائم ہو جائے اور اگر میرا عمل میری نجات کا موجب بن جائے، تو مَیں کامیاب، لیکن ہم سب اس سے بہت دور بھٹک رہے ہیں۔ ہماری اصل ذمہ داری تو ہماری اپنی ذات کی ہے۔ تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ کیا تقاضا کرتی ہے اللہ کی ذات ایک انسان سے۔ عبادت۔۔۔؟ جی ہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مَیں نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔ یہاں پر یہ بات قابلِ غور ہے کہ عبادت کا اصل فلسفہ کیا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک عبادت سے مراد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ عبادات ہیں؟ عبادت کا یہ مفہوم نہ صرف مبہم، بلکہ مسخ شدہ ہے۔ عبادت کا اصل مفہوم اور اس مسخ شدہ مفہوم میں ایسے ہی فرق ہے جیسے ایک غلام اور نوکر میں، اس کی ڈیوٹی میں فرق ہوتا ہے۔


فلسفہ عبادت کو سمجھنے سے پہلے ہمیں یہ طے کر لینا چاہئے کہ ہم جس خدا اور رسول ؐ کے ماننے والے ہیں۔ اس خدا اور رسول ؐ کے سامنے ہمارے حیثیت ایک غلام کی سی ہے یا ایک نوکر کی سی اگر میری رائے پوچھیں تو غلام ہی کی حیثیت ہے اور ہم ہر جگہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم غلام رسول، ہم اللہ کے غلام، اس غلامی پر ہماری جان بھی قربان۔ اگر آپ اس بات سے متفق ہیں تو دوسری بات جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر فرق کیا ہے ایک غلام اور نوکر میں۔ ملازمت تو ایک واضح اور متعین ڈیوٹی کا نام ہے جو ایک مخصوص وقت کے لئے ہوتی ہے۔ آپ اگر گھر میں کھانا پکانے کے لئے کسی کو ملازم رکھتے ہیں، تو آپ ہر گز اس سے اپنا باتھ روم صاف نہیں کروا سکتے۔ اگر آپ اس سے کہیں گے تو وہ آپ کو صاف جواب دے دے گا کہ صاحب مجھے آپ نے کھانا پکانے کے لئے رکھا ہے، جبکہ غلامی ہمہ وقت ہوتی ہے، ہمہ جہت ہوتی ہے اور مسلسل ہوتی ہے۔ غلامی میں مجبوری اور عُذر نام کی چیز کا وجود نہیں ہوتا، مالک کہہ دے کھڑا ہو جا، تو کھڑا ہو جائے، بیٹھنے کا حکم دے تو بیٹھ جائے۔ غلام کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔


عبادت کا لفظ غلامی ہی سے منسلک ہے۔اللہ بندے سے بندگی چاہتا ہے اور وہ بندگی تب ہی بندگی ہو گی، جب وہ انتہا درجے کی اطاعت اور محبت سے تعبیر ہو گی۔ خدا کا اصل مطالبہ اللہ سے بندے کی محبت ہے۔ محبت کیا ہے؟ محبت کا پہلا اصول جو انسان کی انسان سے محبت میں سب سے پہلے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ محبت میں شریک ناگوار ہوتا ہے۔ جب ہم انسان اپنی محبت میں کسی کو شریک برداشت نہیں کرتے تو خدائے بزرگ و برتر اپنی محبت میں کوئی شریک کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ اللہ اور انسان کے رشتے میں سوائے محبت کے اور کوئی چیز نہیں اور خدا کا اپنے بندے کو ہر حکم اِسی محبت کے حصول اور مضبوطی کے لئے ہے۔خدا چاہتا ہے کہ محبت کا یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو اور عبادت کا حکم اِسی لئے دیتا ہے کہ اس رشتے کی تجدید ہوتی رہے اور کوئی شریک اس محبت میں نہ پھٹکے۔ اللہ اور انسان کی محبت میں مال و دولت بھی ایک شریک کی حیثیت رکھتے ہیں، تو مال کی محبت انسان کے دِل میں پیدا نہ ہونے پائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم دیا، جہاد کا حکم دیا کہ اِس دُنیا کی زندگی کی محبت کہیں اس رشتے کو کمزور نہ کر دے۔ اِسی طرح ہر عبادت کا تعلق اس رشتے کو مضبوط بنانے سے ہے اور عبادت تبھی ہو گی، جب اللہ کا حکم مانیں گے، عبادت چوبیس گھنٹے کی اطاعت اور بندگی کا نام ہے، محض پانچ نمازیں پڑھ کر ہم اپنے اس فرض سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

جہاں اللہ کا ایک حکم مانا جائے اور دوسرا ٹھکرایا جائے تو وہ عبادت عبادت نہیں رہتی اور نہ ہی اللہ کا ایک حکم مان کر اور دوسرا نہ مان کر ہم اللہ کی اطاعت کر رہے ہوتے ہیں،بلکہ اگر نفسیاتی طور پر اس پر غور کریں تو اس کا 100 فیصد مطلب یہ ہے کہ ایک حکم جو ہم اللہ کا مان رہے ہیں وہ اس لئے مان رہے ہیں کہ وہ ہمارے نفس کو قبول ہے اورجو نہیں مانا وہ ہمارے نفس کے لئے قابلِ قبول نہیں یا ہمارے دل کو اس حکم کا تابع ہونا پسند نہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں ہم نے اپنے نفس ہی کی اطاعت کی اس میں اللہ کی اطاعت تو بالکل نہیں۔اللہ کی اطاعت تبھی ہو گی، جب ہم بلاتفریق اس کا ہر حکم مانیں گے۔ چاہے وہ ہمارے نفس کو پسند ہو یا نہ ہو۔اللہ ہمیں خود حکم دیتا ہے کہ ’’ اے ایمان کے دعویدار و پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ مطلب یہ کہ جو ہمارے نزدیک 33فیصد نمبر لے کے پاس ہونے والا Concept ہے اللہ نے واضح طور پر اس کی نفی کر دی ہے۔ 33فیصد سے کام نہیں چلے گا یہاں۔
نمازیں پڑھتے رہو، لیکن ساتھ سود بھی کھاتے رہو اور پھر دعوے کرو، نمازی ہونے کے تو اللہ ہر گز اس سے دھوکے میں آنے والا نہیں، ہم اپنے حج اور عمرے سے اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے اور اس سے بھی بڑھ کر اگر ایک انسان سو فیصد شریعت کا پابند ہے، لیکن جس نظام کے تحت زندگی گزار رہا ہے، وہ باطل ہے اللہ کا نافذ کردہ نہیں تو بھی اس کی اطاعت نامکمل ہے اس کے اردگرد اگر سیاسی نظام، معاشی نظام اگر اللہ کی بجائے شیطان کا ہے، تو اس نظام کے تحت سانس لینا بھی کفر ہے۔ بشرطیکہ اس نظام کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے اگر ہم اس نظام کو بدلنے اور اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتے اور انفرادی طور پر شریعت کے بڑے پابند بھی ہیں، تو ہم انفرادی طور پر تو شاید مسلمان ہوں، لیکن اجتماعی طور پر ہم کافر ہی ٹھہریں گے۔ نظام باطل کے تحت زندہ رہنا ایک مسلمان ، جس سے اللہ کے دعوے کرتا ہے اس کے لئے حرام اور اگر ہم اس نظام کو تسلیم کرتے ہیں، تو ہم اللہ کے باغی ہیں اور باغی کی نماز قبول نہیں، دُعا قبول نہیں۔ اس کا کوئی عمل، کوئی اطاعت، اطاعت نہیں رہتی۔ سقوطِ ڈھاکہ ہوا،حرم کے اندر دُعائیں مانگی گئیں۔ پوری قوم سربسجود ہوئی، لیکن کیا اللہ نے ہماری کوئی دُعا سُنی۔ دُعائیں مانگ مانگ کر اسلام کے نام پہ ملک لیا ۔


آج70سال ہو گئے۔ کیا ہم نے اللہ کا نظام نافذ کیا۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ہم مسلمانوں کی، لیکن ایک ٹکے کی اوقات نہیں، ہماری دُنیا میں۔ ہر جگہ اور ہر میدان میں جوتے کھا رہے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اس خدا کی محبت سے فرار اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ایک عاشق اپنے محبوب کو پانے کے بہانے اور کوششیں کرتا ہے ہ بھی مسلسل ہمیں اپنی طرف بلاتا ہے، کبھی ڈرا کے تو کبھی بہلا کے، کبھی اِسی محبت میں کسی کو پیغمبر بنا کے بھیجتا ہے، تو کبھی ولی اور قطب اور مجدد اتارتا ہے، لیکن ہم مسلسل بغاوت پہ اترے ہوئے ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان اس سے محبت کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے، لیکن ہمیں اس محبت میں بھوک اور افلاس اور تنگ دستی نظر آتی ہے۔ ایک تاجر سوچتا ہے کہ بھائی اگر اللہ کی مانوں گا تو کاروبار ٹھپ ہو جائے گا، بچے بھوکے مر جائیں گے۔ ایک وکیل سوچتا ہے کہ اگر سچ بولوں گا تو کوئی کیس نہیں آئے گا میرے پاس۔ سب اپنی اپنی محبتوں میں جُتے ہیں اور خدا کی محبت کو ٹھکرا رہے ہیں۔ ایسے میں پھر کیسے ہم خوش رہ سکتے ہیں۔ ایک انسان کی انسان سے محبت اس کی زندگی میں انقلاب لے آتی ہے۔ اس کا سارا وجود اس کی سوچ بدل دیتی ہے۔ اس انسان کے لئے وہ سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے،لیکن اس خدا کی محبت کو کیوں یہ انسان ٹھکرا رہا ہے جو خدا بھی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے۔ اپنی محبت کو پانے کے لئے رستے بھی بتا رہا ہے۔ توبہ بھی قبول کر رہا ہے، لیکن ہم اس سے دور بھاگ کر پتا نہیں کہاں جانا چاہ رہے ہیں۔ *

مزید :

کالم -