بلدیاتی اداروں کے اہلکار کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں

بلدیاتی اداروں کے اہلکار کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں چالیس کنٹونمنٹ بورڈوں کے لئے انتخابی عمل جاری ہے اور اگلے ماہ مکمل ہو جائے گا، جس کے بعد کنٹونمنٹ کے علاقوں میں جمہوری عمل شروع ہو گا اور ترقیاتی کام عوام کے منتخب نمائندوں کی نگرانی اور وساطت سے ہوا کریں گے۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے۔ خیبرپختونخو میں عمل جاری ہے تاہم ابھی پنجاب اور سندھ میں انتخابی عمل شروع ہونا باقی ہے، ان دونوں صوبوں میں جون کے مہینے میں یہ ادارے قائم کرنا ہیں، جنہیں بلدیاتی کہتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت جمہوریت کھیلنے والے تمام کھلاڑی اختیارات کی تقسیم کے بارے میں بات کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ نچلی سطح تک ہونا چاہئیں، اسی حوالے سے 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقوق دیئے گئے تھے۔ اس پر بھی اس ترمیم کے مطابق تاحال عمل نہیں ہوا، یہ جو ہمارے پارلیمنٹیرین اور ان پر مشتمل حکومت ہے یہ بھی بلدیاتی انتخابات سے آنکھ چراتی چلی آئی ہے،جبکہ سابق حکومت نے بھی کوئی پیشرفت نہیں کی تھی، حالانکہ18ویں ترمیم کا سارا کریڈٹ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین میاں رضا ربانی کو دیا جاتا ہے۔ بہرحال اب یہ انتخابات جو ہوئے اور جو ہونے جا رہے ہیں ان کا سہرا عدالت عظمیٰ کے سر ہے۔ عدالت نے اپنے حکم سے یہ عمل شروع کرایا ہے۔اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بلدیاتی نظام بہترین ہے جو چھوٹی سطح پر روزمرہ کے مسائل بھی حل کر لیتا ہے، جبکہ اس نظام ہی کے تحت علاقائی مسائل حل ہوتے ہیں، گلی محلوں کی صفائی سے سڑکوں، گلیوں کی مرمت اور تعمیر جیسے تمام کام براہ راست ہونا ہوتے ہیں، اسی لئے عوام کی توجہ کے بھی مستحق ہیں اور مُلک کے سخت حالات کے باوجود ان اداروں کا وجود لازم ہے تاکہ روزمرہ کے کام ہو سکیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندے علاقے سے ہوتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کی پہنچ میں بھی ہوتے ہیں، لوگ کاموں کے لئے ان کو براہ راست کہہ لیتے اور ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔


معذرت کے ساتھ عرض کریں تو اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب اراکین خصوصاً برسر اقتدار جماعت کے حضرات کی حکومت ہے، بلکہ ان کی دادا گیری ہے کہ حکومتی جماعت نے بلدیاتی نمائندوں کی کمی پورا کرنے کے لئے اپنی ہی جماعت کے لوگوں کو ٹاؤنوں کی سطح پر کوآرڈی نیٹر مقرر کیا ہوا ہے تاکہ مقامی مسائل حل ہو سکیں، علاقے کے ایم پی اے کو ہی یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ان معاون اداکاروں کی پرکاری سے فائدہ اٹھائیں، اپنے من پسند ترقیاتی کام کروائیں چاہے ملازم کام چوری کے ساتھ ساتھ فنڈز چوری کا بھی سلسلہ جاری رکھیں، اب تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ترقیاتی کام مقامی ایم پی اے کی اجازت کے بغیر نہیں ہو گا۔


آیئے ذرا اس وقت عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں ذرا غور کر لیں، ہم لاہور کی مثال دیتے ہیں، یہاں زبردست مخالفت کے باوجود میٹرو بس چلی اور چلی جا رہی ہے، کئی سڑکیں بھی تعمیر ہوئی ہیں، لیکن بلدیاتی اداروں کے اہلکاروں کی کرپشن اور رشوت ستانی کو کوئی نہیں روک سکا، جس جس ٹاؤن میں مسلم لیگ(ن) کے کارکن نامزد کئے گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر انتظامیہ سے مل گئے ہیں، اندازہ لگا لیں کہ اگر حالات یہ ہوں گے تو کام کیسے ہو گا۔ہم خود اپنے علاقے کی مثال دیتے ہیں۔مصطفےٰ ٹاؤن،علامہ اقبال ٹاؤن اور وحدت روڈ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی آبادیاں ہیں، ان میں رہنے والوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے کہ اونٹ رے اونٹ والی بات ہے اور کوئی کل سیدھی نہیں، علاقے میں صفائی والی کمپنی کام کر رہی ہے، پہلے سے قدرے بہتر کام ہوتا ہے، لیکن دعوؤں کے باوجود اس میں تیزی سے بہتری نہیں آئی۔ محلے اور گلیاں نظر انداز ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف بلدیاتی اداروں کے عملے کی نقل و حرکت پُراسرار ہے اور یہ سرے سے کوئی کام نہیں کرتے، خوشامد سے گزارا کرتے ہیں اور گھر سے ایک فرمائشی پرچی جیب میں لے کر آتے ہیں،جو گھر والی کی طرف سے یاد دہانی کے لئے دی جاتی ہے کہ رات کو مذکورہ سامان لانا ہے۔ یہ حضرات جب پرچی والی فرمائش پوری کریں گے تو خلاف ورزی کو کیسے روک سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنے بھی آپریشن ہوئے یا ہونے ہیں ان سب کی اطلاع پہلے دے دی جاتی ہے اور پھر تجاوزات کے نام پر چند ریہڑی والوں کی تھوڑی اشیاء لے جاتے ہیں، بلکہ عملہ تہہ بازاری خود تجاوزات کا ذمہ دار ہے،معقول رقم کے عوض تجاوزات کی کھلی چھٹی دیتا اور پھر ماہانہ لیتا رہتا ہے۔ سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گڑھے کھود کر بند نہیں کئے گئے، اس کام کے ذمہ دار اہلکاروں میں سے کسی نے اپنا فرض پورا نہیں کیا، حالانکہ ٹاؤنوں میں شاہرات کے لئے میٹ سے ایس ڈی او تک سب کی درجہ بدرجہ ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی جاتی، چنانچہ سڑک خراب ہو اور ابتدا ہی میں مرمت کر دی جائے تو بہت کم خرچ آتا ہے، لیکن یہاں تو حصہ داری ضروری ہے اس لئے پیچ ورک کے لئے صوبائی اسمبلی کے متعلقہ رکن کے نمائندوں کی پسند اور ناپسند سے یہ کام ہوتا ہے۔


ایک مقامی پریشانی یہ بھی ہے کہ شہر میں بھینس یا دودھ والے دوسرے جانور رکھنے کی اجازت نہیں، لیکن یہاں سے بھینسیں کہیں جاتی ہی نہیں کہ جب حکام بالا کہتے ہیں کہ کارروائی کرو تو جانور پہلے ہی کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ مصطفےٰ ٹاؤن وحدت روڈ میں تو سہ پہر قابل نظر ہوتی ہے کہ بھینسوں کا ریوڑ کھلے بندوں مرکزی سڑکوں کے درمیان والی گرین بیلٹ میں جگالی کر رہا ہوتا ہے، یہ مویشی پودے بھی کھا گئے جتنی بار بھی شجر کاری کی جاتی ہے یہ بھینسیں کھا جاتی ہیں۔ یہ نہیں ایک ریوڑ صبح کے وقت نکلتا ہے جو رہائشیوں کی باڑیں کھاتا ہوا، گرین بیلٹ ہی سے اپنا پیٹ بھر کر واپس ہوتا ہے، جبکہ ایک ریوڑ بھیڑوں کا آتا اور جگالی کر کے جاتا ہے یہ سب کھلے بندوں ہوتا ہے جسے کوئی پوچھتا نہیں ہے۔اگر بلدیاتی نمائندے ہوتے تو لوگ ان سے شکایت کرتے تو وہ علاقے کا ہونے کی وجہ سے ساتھ چلا جاتا۔ ان حالات کی درستگی ہی کے لئے انتخاب کی ضرورت ہے۔ *

مزید :

کالم -