اللہ اور اللہ کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں
گوگل کی پیداوار ’’عالم‘‘ بننے کی کوشش میں بڑے احمقانہ سوال کرتی ہے ۔وہ قرآن اور حدیث کی کتابیں خود پڑھیں تو انکے ابہام ختم ہوسکتے ہیں ۔ان کا اللہ کریم کی ذات پر ایمان کامل ہوسکتا ہے۔ دجال پر انکی عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتی ہیں ،انکے مباحثے منطق کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک صحابیؓنے کہا ’’یا رسول اللہﷺ! اگر میں نے دجال کا وقت دیکھ لیا تو میں اُس زمانے میں کیا کروں گا؟ ‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’اپنے ایمان پہ قائم رہنا۔‘‘ دوبارہ عرض کی ’’یا رسول اللہ! وہ بڑا طاقت ور ہو گا، مردوں کو زندہ کرے گا، اگر میں ایمان نہ رکھ سکا تو کیا کروں گا؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’ پھر خدا پہ بھروسا رکھنا اور اُس پہ قائم رہنا۔‘‘ غور طلب بات ہے کہ ایمان چھوڑ دیا صرف اللہ پہ بھروسا قائم رکھنے کا کہا۔ صحابیؓ نے پھر پوچھا ’’یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں اللہ پہ بھی بھروسا نہ رکھ سکا تو ؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’پھر تنہائی اختیار کرنا ۔‘‘ آج کا زمانہ تنہائی کا ہے لیکن ہم اکٹھے ہیں۔ ہمارا جہاد دجال کے الٹ چل رہا ہے۔ صحابہؓ اور ہم میں ایک بہت بڑا فرق علم کا ہے۔ ہم خود کو بہت تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ گو کہ صحابہؓ ظاہراً کم تعلیم یافتہ تھے لیکن اُن کے علم کا بیان کرتا ایک جملہ انتہائی اعلیٰ تھا، اگر آج وہی جملہ ہم بھی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اور ان کے زمانے میں فرق نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ جانتے ہیں کہ جب انھیں کوئی بات پتا چلتی تھی تو وہ کیا کہتے تھے؟ وہ کہتے تھے ’’اللہ اور اللہ کا رسولﷺبہتر جانتا ہے۔‘‘ وہ خود کو کسی الجھن میں ڈالتے ہی نہیں تھے۔
بخاری،ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات کے مطابق رسول پاک ﷺ اپنا لعاب دہن نیچے پھینکتے تھے تو حضرت ابوہریرہؓ ہاتھ رکھ لیتے تھے کہ رسول ﷺ کا تھوک زمین پہ نہ گرے۔ پھر اُسے اپنے جسم سے ملتے تھے۔ ہو سکتا ہے آج کے زمانے میں آپ کو یہ بات اچھی نہ لگے کیونکہ ہم Nestl233 کی بنی قوم ہیں مگر یہی ادب رسول ﷺ کا تقاضا ہے اور یہی ادب اُن کے علم کا ذریعہ تھا۔
چودہ سو سینتیس سال بعد بھی خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی شخص چاہے جتنا بھی قابل ہو، ایک سوال بھی ایسا نہیں کر سکتا جس کا جواب حدیث میں موجود نہ ہو۔ میں بحیثیت استاد ایک بات جانتا ہوں کہ آپ اور اُن میں فرق یہ ہے کہ آپ نے خود کو علم ہضم کرنے کے قابل نہیں بنایا۔ آپ ہیں گوگل کی پیداوار، آپ کے ہاتھ میں mouse ہے، آپ کرتے ہیں کلک ڈاٹ کام۔ آپ کے پاس دنیا کی اطلاعات تو موجود ہیں لیکن یہ معلومات سمجھنے اور انھیں اپنے اندر رکھنے کی صلاحیت آپ میں نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ جو کہتے تھے کہ اللہ اور اللہ کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں ، تو کیا آپ کے خیال میں وہ نہیں جانتے تھے؟ یقیناً جانتے تھے مگر وہ اس بات کو اپنے اند رہی رہنے دیتے تھے۔
ساری دنیا اس بات پہ سوال اٹھاتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے رسول پاکﷺ کے ساتھ جو عرصہ گزارا وہ ایک روایت کے مطابق اٹھارہ مہینے اور ایک دوسری روایت کے مطابق چار سال ہے، تو رسولﷺ کے ساتھ اتنا کم عرصہ گزارنے والاشخص اتنی حدیثیں کیسے بیان کر سکتا ہے۔ سوال اٹھانے والا Google کی پیداوار ہے، وہ کہتا ہے کہ memory میں اتنا dataکیسے ہو سکتا ہے ؟ اِس کے لیے تو micro chip چاہیے۔ یہ سوال کرنے والے کو معلوم ہی نہیں کہ برکت کیا شے ہوتی ہے۔ اُس کی زندگی میں کوئی برکت ہوئی ہو تو اسے پتا ہو گا ناں! حضرت ابوہریرہؓ نے کہا ’’یا رسول اللہﷺ! میں کوئی کام نہیں کرتا، بس آپﷺ کا انتظار کرتا ہوں کہ آپﷺ کب باہر تشریف لائیں اور میں آپﷺ کے ساتھ وقت گزاروں مگر مجھے یاد بڑا کم رہتا ہے ۔‘‘ (بخاری شریف)۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’ابو ہریرہ ! اپنی چادر کھولو۔‘‘ اُنھوں نے چادر کھولی تو آپﷺ نے اس چادر کو ہاتھ لگایا، اُس چادر کو ابوہریرہؓ نے اپنے سینے کے ساتھ لگایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’رب کعبہ کی قسم! میں اس کے بعد کچھ نہیں بھولا بلکہ سارا بھولا ہوا بھی مجھے یاد آگیا۔‘‘ اب اس برکت کو ہم اس زمانے میں نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہم میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے۔
اب کتنی غلط بات ہے کہ ہم اپنی چالیس پچاس سالہ زندگی میں نو حدیثیں بھی نہ پڑھیں اور اُنگلیاں اٹھاتے پھریں حضرت ابوہریرہؓ پر!
ایک صحابیؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا کہ ’’ابوبکرؓ! جب میں نماز پڑھتا ہوں تو دل میں بہت غلط خیال آتے ہیں۔ میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ چلو رسول اللہﷺ کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ وہاں پہنچ کے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! ایسے ایسے خیال آتے ہیں کہ ہم آپ کو بتا بھی نہیں سکتے۔‘‘ اب اُستاد بہت بڑا ہے۔ آپ ﷺ کہتے ہیں کہ یہ عین ایمان ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’ یہ غلط خیال عین ایمان ہیں ۔ اگر شیطان کو تمھاری نماز کی فکر نہ ہو تو تم فکرِ خدا کرو۔ شیطان کو فکر ہو جاتی ہے کہ تم نماز پہ کھڑے ہو گئے ہو، وہ تمھیں وسوسے دینا نہ بھول جائے کہیں۔ شکر کرو خدا کاکہ یہ عین ایمان ہے۔‘‘
اب یہ تفصیل کون بتا سکتا تھا سوائے پیغمبرﷺ کے؟ ہمارے اوررسول ﷺ کی ظاہری زندگی کے زمانے میں چونکہ فاصلہ ہے اس لیے ہم بغیر شرک کیے سوال کر سکتے ہیں۔ اب شرک کی تفصیل کیا بیان فرمائی؟ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے۔ اب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کیا فرماتے ہیں، حضرت ابنِ عباسؓ کیا فرماتے ہیں، کہتے ہیں شرک یہ نہیں ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک مانو بلکہ شرک یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے تمھارا بھروسا اٹھ جائے۔ صرف دو خداؤں کو ماننا شرک نہیں بلکہ خدا کے خدا ہونے پہ یقین نہ رکھنا شرک ہے۔ اُس کے رب العالمین ہونے پہ، رحمٰن و رحیم ہونے پہ تمھیں بھروسا نہ ہو، کہیں تمھارا یہ وہم نہ بن جائے کہ میں نے تو دنیا میں بڑی رشوت کھائی ہے، بہت زنا کیا، بڑی شراب پی، میں اس دنیا میں اتنا بد کار انسان ہوں کہ خدا مجھے نہیں بخشے گا، یہ شرک ہے۔لہذا اللہ کی رحمت پر ایمان،بھروسہ ،یقین اعتماد رکھنا بہترین عمل ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔