نواز شریف ہارتا کیوں نہیں؟

میں نے ارادہ باندھا تھا، کبھی نواز شریف کے حق میں نہیں لکھوں گا۔ نواز شریف کے بارے بھی نہیں لکھوں گا، یہ ارادہ توڑنا پڑا ہے کیا کروں مجبوری ہے! میں سمجھتا تھا میں ناراض ہوں گا تو سبھی عوام نواز شریف کے خلاف ہو جائیں گے۔
میری کیفیت اس روایتی بڑھیا کی طرح تھی جو گاؤں والوں سے ناراض ہوئی تو اپنا مرغا، بغل میں داب کر گاؤں چھوڑ چلی کہ ’’نہ میرا مرغا اذان دے گا، نہ اس گاؤں میں سحر ہوگی‘‘۔
روایتی بڑھیا کی کہانی تو شاید آج کل کی نسل کو معلوم بھی نہ ہو، یوں کہنا چاہئے، ’’ ٹی وی چینلوں کی اینکروں کی طرح جو آنکھیں ملتے ہوئے سیٹ پر آبیٹھتے ہیں اور پھر لکھے لکھائے سکرپٹ مالکوں کی عینکوں سے پڑھ کر یوں گلے پھاڑتے اور بونگیاں مارتے ہیں جس طرح عوام کی نبضوں پر ان کا ہاتھ ہو اور عوام کی پسند و ناپسند کو ان سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہو‘‘۔۔۔
کنویں کے مینڈک کہلانے کے حق دار اکثرٹی وی اینکر اور تجزیہ کار (پہلے دن سے آج تک) دھائیاں دے رہے ہیں کہ ’’نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی، اب اس کے دن گئے، یہ یوں ہے یہ ووں ہے‘‘۔۔۔ ’’مگر نواز شریف ہے کہ عوام میں پہلے سے زیادہ گھسا ہوا دکھائی دیتا ہے‘‘۔
(میں یہاں لکھنے لگا تھا کہ عوام میں پہلے سے زیادہ مقبول ہوتا جارہا ہے، مگر اپنے اندر کے تعصب سے ’’گھسا ہوا‘‘ لکھ دیا ہے، میں خواہ کچھ بھی لکھوں، جو حقیقت ہے وہ تو ہے ہی!)
میں نواز شریف کے اتنا خلاف ہوں کہ ہر الیکشن میں اس کی ’’قبولیت عامہ‘‘ کا مشاہدہ کرنے کے باوجود یہی کہتا رہتاہوں کہ اب نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی ہے۔
میں 2013ء سے پہلے کے حالات سے بھی خوب واقف ہوں، میں نے دو تہائی اکثریت والی نواز حکومت کو ختم ہوتے ہوئے بھی دیکھا جنرل مشرف کے ان اقدامات کو دیکھا اور سمجھا کہ ’’اب اس ملک میں کوئی نواز شریف کا نام نہ لے گا‘‘۔
نواز شریف کے قریب ترین ساتھیوں کی ’’بے وفائی‘‘ کا خوب مشاہدہ کیا مسلم لیگ کے لیڈروں کو راتوں رات کنگ لیگ(ق لیگ) میں جاتے اور اچھلتے دیکھا۔۔۔ شریف فیملی کی جلاوطنی بھی دیکھی اور جنرل مشرف کے وہ اعلانات بھی سنے کہ ’’ اب بے نظیر اور نواز شریف بھول جائیں کہ وہ پاکستان آکر سیاست کر پائیں گے۔۔۔ شریف برادران کی نااہلی کے فیصلوں کا مشاہدہ کیا ان پر کڑے مقدمات ان کی جائیدادوں کی نیلامی اور سزاؤں کا بھی مشاہدہ کیا۔۔۔
ہر بار یہی سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ ’’نواز شریف اب کبھی نہیں ابھرے گا‘‘۔۔۔ مگر یہ کیسا بندہ ہے جو ہر بار ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ تیسری نسل ہے جو اس کے ابھرنے اور نکھرنے کا مشاہدہ کررہی ہے!
2013ء کے انتخابات میں نواز شریف نے اکثریت حاصل کی تو اسی وقت سے، ’’ظاہری اور باطنی قوتیں‘‘ اس کے خلاف متحرک ہوگئی تھیں۔ ہر روز ان کے جانے کی باتیں سنائی دیتی رہیں، ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ’’تجزیہ کار‘‘ اور اخبارات کے ’’تجزیہ نگار‘‘ ان کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے اور کھل کھلا کر لکھتے رہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنا نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پروپیگنڈا ہوا ہے کسی اور کے خلاف نہیں ہوا۔
ملک دشمنی سے لے کر اسلام دشمنی تک ہر الزام لگایا گیا الیکشن کمیشن کے تمام ’’ضابطہ ہائے اخلاق اور ابلاغیانی ذرائع (الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا) کی تمام تر اخلاقیات کے برعکس جس طرح ان کو رگیدا گیا، کسی اور کو نہیں رگیدا گیا۔۔۔ پھر بھی یہ شخص پاکستان کے رہنے والوں کے دلوں سے نکل نہیں پارہا۔۔۔!
پاناما پیپرز میں نام نہ ہونے کے باوجود عدالتی احتساب کی زد میں بھی آیا، 436 لوگوں کے نام تھے، ان میں سے کسی اور کو کٹہرے میں نہ لایا گیا، بلکہ جن کے نام پر آفشور کمپنیاں تھیں، ان میں سے بعض کو ان کے خلاف ’’مدعی‘‘ بنایا گیا اور انہیں ’’نااہل‘‘ قرار دے کر ’’بدنامی‘‘ کے گڑھے میں پھینکنے کی ’’زور آور‘‘ کوششیں کی گئیں۔۔۔ ’’طاقت ور ترین‘‘ حلقوں کی مخالفت اور دشمنی کے ’’تاثر‘‘ کو خوب خوب ابھارا گیا۔۔۔ شکوک و شبہات کو بہت تیزی اور کثرت سے پھیلایا گیا، مذہبی فتوے اور ملک دشمنوں سے دوستی کے آوازے کسے گئے۔۔۔ کیا کیا حربہ ہے جو استعمال نہیں ہوا۔۔۔ پھر بھی نواز شریف ہے کہ ’’لوگوں کے دلوں سے نکل ہی نہیں رہا‘‘۔۔۔
پہلے سیاست ہوتی تھی،’’ بھٹو مخالفت اور بھٹو حمایت‘‘ کی بنیادوں پر اب سیاست ہوتی ہے، نواز شریف کی مخالفت اور نواز شریف کی حمایت کی بنیاد پر۔۔۔ اس وقت پاکستان کے تمام سیاستدان اسی بنیاد پر متحرک ہیں، ایک دوسرے کا نام تک نہ سننے والے ایک دوسرے کو کرپٹ، یزید اور شیطان تک قرار دینے والے، ایک دوسرے پر غلاظت پھینکنے والے، صرف اور صرف نواز شریف کی مخالفت میں ایک صفحے پر جمع ہیں۔
بعض نادیدہ ہاتھوں کی آشیر باد اور خفیہ طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے، پھر بھی سارے اپوزیشن والے مل کر بھی نواز شریف کو پسپانہیں کرپارہے، سیاست کے میدان میں وہ معرکے پر معرکہ مارتا چلا جارہا ہے۔ کوٹ مومن کے جلسے کی کامیابی کے بعد چکوال میں حیران کن کامیابی نے تو مجھ جیسے نواز مخالف کو بھی حیران کردیا ہے۔ 2013
ء میں 62ہزار ووٹ لینے والا ’’نااہل‘‘ ہو کر قریباً 76 ہزار ووٹ لے گیا۔۔۔ آخر یہ نواز شریف ہارتا کیوں نہیں؟۔۔۔ اور کیا کریں کہ یہ ہار جائے؟ لگتا نہیں کہ عوام اس کو چھوڑیں گے! یہ لوگ بھی عجیب ہیں، جتنا اس کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے، اتنا یہ اس کے گرد ہوتے اور اس کی سیاست سے چمٹتے جاتے ہیں۔۔۔ کیا انہیں کچھ اور نظر آتا ہے، وہ کیوں نہیں دیکھتے، جو طاقت ور حلقے ان کو دکھانا چاہتے ہیں۔۔۔
نواز شریف نہیں ہارے گا، جب تک عوام اس کو چاہتے ہیں آئیں سب مخالف مل کر عوام کے خلاف متحدہو جائیں، عوام کو ورغلائیں اور ان کے دلوں سے نواز شریف کی محبت کھرچ دیں تاکہ وہ اس کی طرف راغب نہ ہوں۔۔۔! کیا عوام کے دل سے چاہت نکال کر بے زاری ڈالی جاسکتی ہے؟
کیا یہ کسی انسان یا انسانی طاقت کے بس میں ہے؟۔۔۔(مقلب القلوب ذات تو مستوی عرش ہے!)