مولانا مودودیؒ کے چند غیر مطبوعہ خطوط
ادارہ معارف اسلامی کراچی کی طرف سے ایک چھماہی ادبی مجلہ ”تحصیل“ شائع ہوتا ہے۔ اس میں صرف تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ اس کے ایڈیٹر ممتاز محقق اور نقاد جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل ہیں۔”تحصیل“ کے موجودہ شمارے (نمبر6:) میں انور معظم، سید تنویر واسطی اور محمد سہیل عمر کے تین انگریزی مقالات ہیں۔اردو حصہ میں محسن جاوید کے انگریزی ناول ”عالمگیریت کا تناظر“ پر ڈیوڈ واٹرمین کے انگریزی مقالے کا منیب الحسن رضا نے ترجمہ کیا ہے۔ محمد اکرام چغتائی نے اشپرنگر کی ایک قدیم فہرست کتب دریافت کی ہے۔
مقالات کے ذیل میں چھ تحریریں ہیں: عارف نوشاہی نے لائق جونپوری کی مثنوی سادہ پُرکار کے بارے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اسے میرزا عبدالقادر بیدل سے منسوب کرنا غلط ہے۔ عبدالعزیز ساحر نے ”تاریخ مشائخ چشت“(جلد پنجم) کی اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔محمد راشد شیخ نے ماضی کے صاحب ِ کردار اساتذہ کے واقعات پیش کیے ہیں اور تنزیل الصدیقی الحسینی نے بنگال کے معروف صحافی مولانا محمد اکرم خان کے صحافتی کارناموں پر دادِ تحقیق دی ہے۔
”تحصیل“ کے زیر نظر شمارے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے غیر مطبوعہ خطوط پر مبنی ایک خصوصی گوشہ مختص کیا گیا ہے۔اس میں مولانا کے مرزا عزیز فیضانی کے نام 13،چودھری غلام محمد کے نام12،حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کے نام چار اور معین الدین عقیل کے نام تین خطوط شامل ہیں۔ ان خطوط میں مولانا کی اپنی صحت، اسلامی دُنیا سے روابط اور چند علمی مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ان کے مطالعہ سے مولانا کی اپنی صحت کے اُتار چڑھاؤ اور مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے۔
مولانا کے کندھوں پر اپنی جماعت کی بھی ذمہ داریاں تھیں اور انہیں ذاتی مسائل کا بھی سامنا رہتا تھا۔ خاص طور سے بیماریوں کا مقابلہ کرنا ایک الگ بڑا مسئلہ تھا۔ ان کی علالت کی تفصیل سے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح تصنیف و تالیف اور جماعتی امور انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطوط پڑھتے اور ان کے جوابات کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔
چودھری غلام محمد کے نام ایک خط (مرقومہ14اکتوبر 1960) میں اپنی علالت کا ذکر کرتے ہیں:
”موسم بدلتے ہی دائیں شانے میں درد شروع ہو گیا ہے، جس کے اثر سے بعض اوقات انگلیوں تک پورا ہاتھ سُن ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی درد ایک طرف سینے تک اور دوسری طرف کہنی ا ور کلائی کے جوڑوں تک پھیل جاتا ہے۔“(ص:141)
ایک طرف صحت کا یہ عالم ہوتا، دوسری طرف انہیں جماعتی ذمے داریاں بھی ادا کرنی ہوتیں۔ آخر وہ انسان ہی تھے۔ چودھری صاحب ہی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: (مصیبت) یہ ہے کہ جماعت کے لوگ میری اس کیفیت کو نہ محسوس کرتے ہیں نہ اس کا لحاظ۔ انہوں نے سخت اصرار کر کے کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ رکھ دیا۔“ (ص:141)
فاضل مرتب نے بتایا ہے کہ وہ خطوط یا تو خود لکھتے یا کسی ساتھی کو لکھوا دیتے تھے۔ان خطوط میں ایک جگہ انہوں نے لفظ ”خدا“ پر بحث کی ہے اور دوسرے میں ”آثار“ کا مفہوم واضح کیا ہے۔ قارئین کی معلومات کے لیے مَیں مولانا کے خطوط میں سے یہی دو چیزیں پیش کر رہا ہوں:
”خدا“ کا لفظ فارسی زبان کا لفظ ہے اور یہ مالک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔قرآن کریم اور حدیث و آثار میں اس لفظ کے استعمال نہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ عربی کا لفظ نہیں ہے۔اگر آپ یہ لفظ استعمال نہ کرنا چاہیں تو اللہ کا لفظ استعمال کر لیا کریں،لیکن اس کے استعمال کو غلط نہ سمجھیں اور نہ اس کے بارے میں کوئی خلش اپنے دِل میں رکھیں۔ اردو زبان میں یہ لفظ بالکل ”اللہ“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے“۔(ص154:)
”آثار کا لفظ قولی احادیث کے لیے اصلاحاً پہلے سے مستعمل ہے۔امام طبحا وی کی مشہور کتاب جس میں انہوں نے احادیث قولی و عملی اور صحابہ کرامؓ کے تعامل سے احکامِ فقہی کے نظائر پیش کیے، اس کا نام انھوں نے شرح معانی الآثار رکھا ہے۔ متقدمین بالعموم اثر کا لفظ ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتے تھے، جس میں حضور نبی کریمؐ کے اقوال و اعمال اور صحابہ کرامؓ کے اقوال و اعمال سب شامل تھے۔“(ص120:)