دہشت گردوں کی بیخ کنی کا عزم صمیم
بی بی سی نیوزکے مطابق مسلح افراد نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 17ملازمین کو اغوا کرلیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کنندگان کے محکمانہ سرکاری شناختی کارڈز کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ فتنہ الخوارج نے لکی مروت کے علاقے قبول خیل میں ملازمین کو اغوا کیا جن میں سے 8کوتاحال بازیاب بھی کرالیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے ملازمین کو اغوا کرنے کے بعد مقامی ٹھیکیدار کی گاڑی کو آگ لگا دی۔
ٹی ٹی پی نے اب ملازمین کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اٹک اور راولپنڈی میں بھی اغوا کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ فتنہ الخوارج اب پنجاب میں اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کی منصوبہ سازی کررہا ہے۔ اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک عرصے سے حالتِ جنگ میں ہے۔ صوبہ کے پی ہو یابلوچستان، دونوں صوبوں میں اندرونی اور بیرونی دشمن کے ساتھ ریاست پاکستان کی جنگ جاری ہے یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی جنگ ہے۔ یہ سادہ سی دہشت گردی کے معاملات نہیں ہیں اس دہشت گردی کے پیچھے ہمارا دشمن بھارت اور دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جو ایسے لوگوں کو فکری و نظری اور اسلحی و مالی امداد فراہم کرتی ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جوپاکستان سے علیحدگی کے لئے لڑ رہے ہیں انہیں بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کچھ گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے افغان حکمران اسے مانتے ہی نہیں ہیں وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں لیکن کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد یہ معاملہ شاید کسی نہ کسی حد تک دب گیا ہے ختم نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں،علیحدگی کی تحریک اور فتنہ الخوارج کچھ گڈمڈ ہو چکے ہیں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ صوفی محمد کی سوات میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی کاوشیں کیا رنگ لائی تھیں۔ ہم نے دسمبر 1979ء میں جب اشتراکی افواج کے افغانستان پر قبضے کے بعد مجاہدین افغانستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ہم اشتراکی فوج کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے۔ پھر اس جنگ میں امریکہ اور اقوام مغرب بھی شامل ہو گئیں لیکن ہم فرنٹ لائن ریاست کے طور پر فعال اور موثر کردار ادا کرتے رہے اس کے ہمیں بہت سے فائدے بھی حاصل ہوئے۔ اسی افغان جنگ کے دوران پاکستان مغربی دنیا کی آنکھ کاتارا بنا رہا۔ ڈالر یہاں پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔پوپ جان پال نے افغان جنگ کو شیطان کے خلاف جہاد قرار دیا جس کے باعث مغرب کا مذہبی طبقہ بھی یکسوئی کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوا یہاں تفصیلات لکھنے کا وقت نہیں ہے کہ یہ لوگ کس طرح جہاد میں شریک ہوئے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ افغانستان کے دشوارگزار پہاڑوں اور وادیوں میں جہاں انسان کا پہنچنا محال تھا وہاں مغرب کے نوجوان ڈاکٹر (خواتین و حضرات) افغانوں کی مدد کے لئے پہنچے تھے۔ بہرحال یہ مغرب کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو پذیرائی ملتی تھی۔ بھارت کا سفارتی مقام ٹھپ ہو گیا تھا پاکستان نے اسی دور میں نہ صرف اپنی دفاعی قوت بڑھائی بلکہ ایٹمی پروگرام بھی مکمل کرلیا۔ ہم نے اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لئے کھول دی تھیں۔ مجاہدین کو محاذِ جنگ پر گولی اور روٹی پہنچانے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔افغان عوام کی جدوجہد آزادی کامیاب ہوئی افغان مجاہدین جیت گئے روسی افواج واپس لوٹ گئیں۔ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ ہم نے افغانستان کی داخلی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اسی دور میں جنرل حمید گل کی زیر قیادت کابل میں مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کے لئے آپریشن جلال آباد کیا گیا جوبُری طرح ناکام ہوا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نہیں گرائی جا سکی۔ پاکستان کی خاصی بدنامی ہوئی۔ ہم پھر بھی کبھی حکمت یار کی،کبھی استاذ ربانی کی اور کبھی مجددی کی حکومت بنانے اور گرانے میں ملوث ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق تو 17اگست 88 میں منظر سے ہٹا دیئے گئے تھے سی ون تھرٹی کے حادثے میں افغان جنگ لڑنے والی ہماری قیادت ختم کر دی گئی۔جنرل حمید گل کے علاوہ بڑے جرنیل اس حادثے میں شہیدہو گئے تھے۔خانہ جنگی کے بعد طالبان ابھرے اور 2001ء میں نائن الیون کے سانحے کے بعد یہاں امریکی اتحادی افواج آ گئیں۔ ہم نے امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اور اپنی افغان پالیسی کو 180درجے پر تبدیل کرلیا۔ حد یہ ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں افغان سفیر ملاضعیف کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔ ہم نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا تھا انہوں نے عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اسلام آباد میں سفارتخانہ قائم کیا تھا اور ان کے سفیر کی حیثیت مسلمہ تھی لیکن ہم نے ایک امریکی ٹیلیفون پر اپنی دس سالہ افغان پالیسی پرخطِ تنسیخ پھیر کر سفیر کو امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ پھر 20سال تک ہم امریکی حلیف بنے رہے لیکن درپردہ امریکیوں کے خلاف لڑنے والے طالبان کے ساتھ بھی تعلق قائم رکھے،ہماری زمین، ہماری فضا طالبان کے خلاف امریکیوں کے زیر استعمال تھی لیکن ہم نے طالبان لیڈروں کو، ان کے خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی تھی۔ ہماری ایسی ہی پالیسیوں کے باعث دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ افغان بارڈر سے سلپ ہو کر ہمارے بندوبستی علاقوں تک ہی نہیں پھیلی بلکہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی۔ امریکی یہ جنگ ہار کر کئی سال پہلے افغانستان سے رخصت ہوچکے ہیں ان کی اعلان کردہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن یہ جنگ ہمارے کھاتے میں چڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروہوں کے ہاتھ امریکی فوج کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ آ چکا ہے ان کی حملہ آور ہونے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے کے بعد ہماری شمال مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔14اگست 2021ء کو جب امریکی یہاں سے بھاگے اور طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو ہم نے جشن فتح منایا تھا لیکن ہماری امیدیں بر نہ آ سکیں افغانستان ہمارے خلاف لڑنے والے گروہوں کی محفوظ پناہ گا بن چکا ہے۔ ایک فرق ضرور ہے پہلے امریکہ بھارت اور افغان حکومت ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا انہیں امداد دینا تھا کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں لیکن اب دہشت گردوں کو ایسی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد عمران حکومت نے کچھ ایسی غلطیاں کیں جن کے ہولناک نتائج نکلے۔ دہشت گردوں کو پاکستان میں دوبارہ قدم جمانے کے مواقع ملے اور اب وہ زیادہ قوت کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر ریاستی و مملکتی ادارے ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کا عزم صمیم اور قربانیاں دینے کا محکم ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دفعہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ ان شاء اللہ