یہ لاتے نہیں لے کر جاتے ہیں

جدید ترین، بلکہ تازہ ترین عوامی حکومت کے سربراہ فوری طور پر اور بیک وقت آئین پاکستان میں دو ترمیمات کرنے کا عزم لے کر اٹھے ہیں ایک یہ کہ قانون سے مستثنیٰ صرف صدر مملکت نہیں، بلکہ تمام بالائی حکمران طبقہ کو استثناءحاصل ہوگا اور عدلیہ کی توہین کا اطلاق ان سب پر نہیں ہوگا،گویا جمہوری آئین کو”شاہی آئین“ میں ڈھالا جارہا ہے۔دوسری ترمیم یہ ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے لوگ غریب پاکستانی عوام پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کل کو صدر مملکت،وزیراعظم،گورنر اور وزرائے اعلیٰ وغیرہ لندن اور واشنگٹن سے آیا کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ ترمیمات ہو پاتی ہیں یا نہیں اور قطع نظر اس کے کہ یہ دونوں ترمیمات کتاب و سنت اور پاکستان کے جمہوری آئین سے متصادم ہیں، اس لئے مسترد ہیں، مگر ان کی وجہ عدالت عظمی کے فیصلے ہیں،جن میں انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آیا ہے، مگر کرپٹ اور ناکارہ حکمران ٹولا انصاف ہوتا دیکھنا گوارا نہیں کرسکتے،بلکہ وہ صرف نظر آتی ہوئی حسیں کرپشن ہی گوارا کر سکتا ہے، اس کے علاوہ عوامی مسائل سے قطعی بے نیازی بھی اسے گوارا ہے۔
آئینی دفعات اور توہین عدالت کے قانون سے استثناءکا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی کا عملی آغاز ہوگیا ہے اور اب ہاتھ میں چراغ رکھنے والے چوروں کا دور آنے والا ہے، جو علی الاعلان قانون کی خلاف ورزیاں اور عدالتی فیصلوں کا تمسخر اڑائیں گے اور اپنے ووٹروں کے سینے پر مونگ دلیں گے اور وہ ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے، بلکہ صبر کے کڑوے گھونٹوں پر گزارا کریں گے! سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اللہ کے رسول، ان کے خلفائے راشدینؓ اور عام آدمی کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونے والے اسلامی ہیروز سے بھی بدتر ہیں؟ معاذ اللہ! یہ ہماری پندرہ سو سالہ شاندار تاریخی روایات پر پانی پھیرنے اور ان کا مذاق اڑانے کا حق رکھتے ہیں؟ .... دہری شہریت والوں کو ہم پر حکمرانی کا حق دینے والا قانون تو ایک نئی سامراجی ایسٹ انڈیا کمپنی کو آئینی تحفظ دینے کے مترادف ہے۔ جو لوگ بیرون ملک سے ہم پر حکمرانی کا آئینی حق لے کر آئیں گے، وہ سامراجی نمائندے تو ہوں گے، مگر یہاں کے عوام کے نمائندے نہیں ہو سکتے! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پیچھے کام کرنے والا سودخور صہیونی ذہن ایسے ہی بین الاقوامی شہریوں کا تصور رکھتا ہے، جو اسلامی دنیا کو قابو کرنے اور مسلمانوں کو غلام بنانے کے پروانے لندن اور واشنگٹن سے لے کر آیا کریں گے۔
وہ جب آئیں گے تو ان کے پاس زرمبادلہ کے بجائے خالی بوریاں ہوں گی، جو وہ یہاں کی دولت سے بھر کر ساتھ لے جائیں گے۔ یہ ایک مفروضے اور مغالطے(یعنی لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے )کی کوشش ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے مہربان ہمارے خزانوں کو زرمبادلہ سے بھرتے ہیں یا بھردیا کریں گے! ایسی کوئی بات نہیں ہے او رنہ ہوگی۔ بیرونی زرمبادلہ سے پاکستان کو سہارا دینے اور اس کا خزانہ بھرنے والے تو دراصل وہ غریب محنت کش ہیں ،جو بیرونی ملکوں میں اچھی اور دیانت دارانہ محنت سے انہیں ترقی دیتے، ملک کے لئے نیک نامی کماتے اور اپنے خون پسینے کی کمائی اپنے عزیزوں اور وطن عزیز کی نذر کرتے ہیں، مگر ان غریبوں کو نہ سفارت خانوں میں ہماری نوکرشاہی منہ لگاتی ہے اور نہ کسٹم والے ان سے ٹھیک طرح بات کرتے ہیں۔ رہے” یہ دہری شہریت والے بڑے“ تو یہ سفارت خانوں میں بھی عزت پاتے ہیں اور واپسی پر بھی ان سے ”بڑوں والا“ سلوک ہوتا ہے، حالانکہ یہ ملک کے لئے زرمبادلہ نام کی کوئی چیز نہ بھیجتے ہیں، نہ ساتھ لاتے ہیں، بلکہ یہ جب واپس جاتے ہیں تو غریبوں کا بھیجا ہوا زرمبادلہ بھی خرید کر یا ہیرا پھیری سے اپنے ساتھ واپس لے جاتے ہیں!
یہ دہری شہریت کے مالک لوگ بیرونی ملکوں کی شہریت بھی اس سرمائے سے خریدتے ہیں، جو وہ غریب عوام کے اس امیر و خوشحال ملک پاکستان سے لے کر جاتے ہیں، اگر منصفانہ تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ”دہری شہریت والے“اس زرخیز و خوشحال ملک کی زمینوں اور فیکٹریوں سے حاصل ہونے والا سرمایہ، جو دراصل غریب کسانوں اور مزدوروں کے خون پسینے کا پیدا کردہ ہے، لے کر جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ باہر کا کوئی ملک انہیں اپنی شہریت پلیٹ میں رکھ کر تحفے میں پیش نہیں کرتا۔کینیڈا اور آسٹریلیا کی شہریت تو بکتی ہے، کبھی اس کی قیمت وہ علم کا سرمایہ ہوتا ہے،جو یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے، مگر اکثر و بیشتر نقدی کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔مَیں نے دیکھاہے کہ ہماری نام نہاد اشرافیہ (جو وڈیرہ شاہی، نوکرشاہی اور تانا شاہی یا جرنیلی پر مشتمل ہوتی ہے) وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے انکل سام کا گرین کارڈ یا کینیڈا اور آسٹریلیا کی شہریت خریدنے کے لئے پاکستان سے حاصل کی ہوئی دولت کے تھیلے بھر کر پھرتے اور بڑے بے قرار نظر آتے ہیں۔ان کی زبان پر غریبوں کے اس زرخیز و خوشحال ملک کے لئے نفرت و تحقیر بھرے الفاظ ہوتے ہیں اور جہاں جارہے ہیں، اس ملک کے لئے تعریف و تعظیم کے ترانے ہوتے ہیں،حالانکہ پاکستان نے ان کے تھیلوں کو دولت سے بھرا ہے اور جہاں جارہے ہیں ، وہاں قدم رکھنے کی جگہ انہوں نے اسی دولت سے خریدی ہوتی ہے۔
یہاں سے جا کر وہاں سے انہوں نے اس محسن ملک کے لئے کبھی کچھ نہیں بھیجا اور جب آتے ہیں تو خالی ہاتھ،کیونکہ انہوں نے یہاں سے سرمایہ سمیٹ کر اپنے ”محبوب اور پسندیدہ ملک“ میں لے جانا ہوتا ہے۔گویا اس ملک کی شہریت ان کے لئے چراگاہ ہے،جہاں انہوں نے صرف چرنا اور تھیلے بھرنا ہوتے ہیں، مگر اپنے خوابوں کی خریدی ہوئی ،جگہ پر عیش کرنا اور مرنا ہوتا ہے۔وہ اپنے عیش کرنے اور مرنے کی جگہ سے یہاں کے لئے زرمبادلہ کیوں بھیجنے لگے!....پھر جب کبھی وہ اس حقیر، مگر زرخیز ملک میں واپس آئے اور انگریز کی دی ہوئی جاگیر میں اپنے باپ دادا کی موروثی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا موڈ بن گیا تو ”عوامی نمائندگی“ کے نام سے اس غریب قوم اور اس زرخیز ملک پر مسلط ہوگئے پھر تو وارے نیارے ہیں۔
وہ یہاں کچھ لانے کے بجائے سب کچھ لے جانے کا عزم لے کر آتے ہیں اور اگر جب کبھی اس ملک و قوم کے مفاد کا ٹکراﺅ اپنے نئے ملک کے مفاد سے ہوا تو وہ لازماً© اور مجبوراً اپنے نئے ملک کے حق میں ہوں گے، ورنہ وہاں کے آقا انہیں اپنی خریدی ہوئی جگہ پر بھی قدم نہیں رکھنے دیں گے! دہری شہریت والوں نے اپنے نئے ملک کے عیش و آرام کو چھوڑ کر اس غریب قوم کے خوشحال ملک میں واپس کبھی نہیں آنا، ا س لئے آئین میں انہیں اس ملک و قوم پر حکمرانی کا حق دینا کسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے! وہ یہاں کبھی کچھ لے کر نہیں آئیں گے، اور جب کبھی آئیں گے تو سب کچھ لے جانے کے لئے آئیں گے! اس لئے پارلیمان کے محب وطن ارکان سے التجا ہے کہ ہم پر رحم کھائیں اور لندن یا واشنگٹن سے درآمد ہونے والے حکمرانوں کو ہم پر مسلط کرنے کی آئینی راہ نہ ہموار کریں! مگر اس غلط فہمی میں نہ رہیں اور نہ قوم کو اس میں مبتلا کریں کہ ایسے لوگ اس ملک کے لئے کچھ لے کر آتے یا آئیں گے، بلکہ آئیں گے تو سب کچھ لے جائیں گے!
سامراجی ملکوں کی شہریت خریدنے والوں میں بھاری رشوتوں سے قوم کی کھال اتارنے والے نوکر شاہی اور وڈیرہ شاہی کے پرزے ہوتے ہیں یا ڈاکو اور سمگلر ہوتے ہیں۔کچھ ایسے مہربان بھی ہوتے ہیں جو قوم سے چندہ جمع کرکے ، بھتہ وصول کرکے، زکوٰة وصدقات اور قربانی کی کھالیں دھونس اور دھاندلی سے وصول کرتے ہیں، پھر ڈالروں کی بوریاں بھر کر سامراجی ملکوں سے شہریت خریدتے ہیں۔کیا دہری شہریت رکھنے والے ایسے دہشت گرد اور لٹیروں کو بھی ہم پر حکومت کرنے کا آئینی حق دیا جارہا ہے!خدا کےلئے اس غریبوں کے زرخیز و خوشحال ملک پر رحم کیجئے،ہاں اگر نمائندگی اور حکمرانی کا حق دینا ہی ہے تو پھر ان محنت کشوں کو دیجئے،جو مشرق وسطیٰ کے علاوہ دیگر ایشیائی اور مغربی ملکوں سے اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنے وطن کے خزانے بھرتے ہیں ان کے لئے انتخابی حلقے الگ بنایئے، سعودی عرب،کویت اور دبئی میں کام کرنے والوں کا ایک حلقہ بنایئے، انکل سام اور مامانام کے دیس میں الگ الگ حلقے بنایئے،جہاں کے ووٹروہاں کام کرنے والے صرف وہ محنت کش ہوں ،جو وہاں کام کرتے ہیں، ان کے اپنے نمائندے ان کے ووٹ سے ہوں اور ان کے سامنے جواب دہ ہوں، لیکن غلط کاروں کو ان کے نام سے قوم پر مسلط مت کیجئے،جو دہری شہریت رکھنے والا ہماری نمائندگی اور ہم پر حکومت کرنے کا حق مانگے، وہ پہلے تحقیق سے ثابت کرے کہ واقعی وہ اس ملک کے لئے زرمبادلہ لاتا بھی ہے، صرف اس مفروضے پر نہیں کہ چونکہ اس کے پاس کسی طرح دہری شہریت آ گئی ہے، لہٰذا وہ اس نمائندگی اور حکمرانی کا حق بھی رکھتا ہے!
حسنی مبارک کے نامبارک عہد میں تین منتخب ہونے والی قومی اسمبلیوں کے ارکان میں سے ستر فیصد انکل سام کے گرین کارڈ ہولڈر ہوتے تھے جو مصر کے قومی خزانے سے اپنے اخراجات وصول کرتے تھے، بلکہ آتے ہی امریکی سفارت خانے سے ہدایات لیتے اور جاتے ہوئے اپنی رپورٹ جمع کراکر جاتے تھے! انہی لوگوں کے بل بوتے پر حسنی مبارک کی حکمرانی، اسرائیل اور امریکہ سے مصر کی دوستی قائم تھی! ہم ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں نمائندگی اور حکمرانی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ وہ عالمی شہریت رکھنے والے ہوں گے،جو اسلامی دنیا پر صہیونیت کو مسلط کرنے کے لئے نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کا رول ادا کریں گے، ان سے ہمارے وطن کو بچاﺅ! یہ لوگ زرمبادلہ لاتے نہیں، بلکہ لے کر جاتے ہیں، انہوں نے ہی اس ملک کو دیوالیہ کر رکھا ہے۔ ٭