ٹریفک نظام وزیراعلیٰ کی توجہ کا متقاضی

 ٹریفک نظام وزیراعلیٰ کی توجہ کا متقاضی
 ٹریفک نظام وزیراعلیٰ کی توجہ کا متقاضی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  بانیئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا: ایمان، اتحاد، تنظیم، لیکن یہی تین چیزیں ہمیں اپنی عملی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ کوئی شعبہ، کوئی محکمہ، کوئی ادارہ، کوئی وزارت اٹھا کے دیکھ لیں، اس کے معاملات کو جان پرکھ  لیں، ہر سطح پر کوئی نہ کوئی خرابی، کوئی نہ کوئی سقم، کوئی نہ کوئی بد معاملگی نظر آئے گی، ہو سکتا ہے سرکاری محکموں اور اداروں کے ساتھ آپ کا واسطہ زیادہ نہ پڑا ہو، یا کبھی کبھی پڑتا ہو، لیکن ٹریفک کے ایشوز اور معاملات تو روزمرہ کی چیزیں ہیں، اور ہر کوئی ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ٹریفک کے حوالے سے کہیں کسی سڑک پر، کسی چوراہے پر، کسی ٹریفک سگنل پر کوئی ترتیب، کوئی تنظیم آپ کو نظر آئی؟ مجھے تو کبھی نظر نہیں آئی اور اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے، یہ ہے کہ وہ جنہوں نے سڑک استعمال کرنی ہے انہیں اس کی تعلیم ہی نہیں دی گئی، ان کی تربیت ہی نہیں کی گئی، آپ کے بچے بھی سکول میں پڑھتے ہوں گے، کبھی ان سے پوچھیے گا کہ انہیں ان کے سکول والے کبھی سڑک پر لے کر گئے، انہیں بتایا کہ کون سے اشارے کا کیا مطلب ہے، اور سڑکوں پر جو پیلی اور سفید رنگ کی لائنیں لگی ہوتی ہیں،ان کا کیا  مقصد اور مصرف ہے؟ زیبرا کراسنگ کیا ہوتی ہے اور اگر ٹریفک بلاک ہو تو کہاں رکنا چاہیے اور کس طرح تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں تو ایسی تربیت کبھی نہیں دی گئی ہو گی۔ جب تربیت ہی نہیں ہے تو پھر عمل کہاں سے آئے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ہماری سڑکوں پر، ہمارے چوراہوں پر ایک بے ہنگم ہجوم نظر آتا ہے جس میں ہر کوئی آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی وجہ سے کسی اور کو کتنی دشواری یا کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ جنہوں نے ٹریفک کے معاملات کو چینلائز کرنا ہوتا ہے، ٹریفک کے بہاؤ کو قائم رکھنا ہوتا ہے اور ٹریفک کو بلاک ہونے سے روکنا جن کی ذمہ داری ہے، وہ ان ساری ذمہ داریوں کو ایک طرف رکھ کر کسی چوک یا چوراہے پر، کسی سڑک پر، کسی ناکے پر کھڑے موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ والوں کے چالان کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا ہوا، اس کے اشارے ٹھیک ہیں یا نہیں، وہ ون وے کی خلاف ورزی کر رہا ہے یا نہیں، ان چیزوں  پر انہیں کھڑا کر کے ان کے چالان کیے جاتے ہیں کیونکہ اس سے ریونیو جنریٹ ہوتا ہے جس سے ہو سکتا ہے کہ ادارے کے مالی معاملات چلتے ہوں، میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ٹریفک وارڈنز جس طرح موٹر سائیکل سواروں کو کھڑا کر کے اور بعض اوقات بیچ چوراہے کھڑا کر کے ان سے تفتیش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے چالان کاٹ رہے ہوتے ہیں، اس سے محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہمارے ملک میں ٹریفک کے سارے مسائل کی جڑ موٹر سائیکل سوار ہیں اور  اگر چالان کر کر کے ان کو ٹھیک کر دیا جائے تو ٹریفک کے باقی معاملات خود ٹھیک ہو جائیں گے۔ ٹریفک پولیس والے آج کل موٹر سائیکل والوں کے ساتھ ساتھ رکشہ والوں کو بھی بہت زیادہ تنگ کر رہے ہیں، لگتا یہ ہے کہ ان کا کام اور ذمہ داری صرف رکشہ والوں اور موٹر سائیکل والوں کے چالان کرنا ہے، ٹریفک کنٹرول کرنا نہیں، لوگ پہلے ہی بے انتہا مہنگائی سے پریشان ہیں، اوپر سے یہ لوگ روز ناکے لگا کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور موٹر سائیکل والوں کے ناحق چالان کرتے ہیں اور انہیں جرمانے کرتے ہیں، کوئی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے ضرور جرمانہ کیا جانا چاہیے، لیکن اسے روٹین بنا لینا کسی طور ٹھیک نظر نہیں آتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ عوام سے بہت ہمدردی رکھتی ہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تین چار ماہ کے مختصر عرصے میں انہوں نے ریکارڈ عوام دوست منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اللہ کرے کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد بھی ہو تاکہ ان کا فائدہ عوام کو پہنچے۔ میری ان سے التماس یہ ہے کہ وہ لاہور اور باقی بڑے شہروں میں ٹریفک کے معاملات پر بھی توجہ دیں اور ٹریفک وارڈنز کو من مانیاں کرنے سے روکیں۔ جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کا ضرور چالان ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہر وقت وہ چالان کاٹتے ہی نظر آئیں۔ انہیں ٹریفک کنٹرول کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ صرف یہی نہیں ٹریفک وارڈنز بات نہ ماننے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے لاہور کے مال روڈ پر تین ٹریفک وارڈنز نے ایک کار سوار کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا تھا، ریگل چوک پر وارڈنز لائسنس چیک کرنے کے دوران کار سوار سے الجھنے لگے تھے۔ ایک ماہ پہلے کی ایک خبر اس طرح ہے: ڈیوٹی پر موجود ٹریفک وارڈنز کو کم سے کم 20 چالان روزانہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ٹر یفک پولیس ذرائع کے مطابق ڈویژنل ایس پیز اور ایس ڈی پی اوز کو چالان کا ٹارگٹ بڑھانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ڈویژنل ایس پیز اور ایس ڈی پی اوز نے وارڈنز کو چالان زیادہ کرنے کا حکم دیا، انہیں متنبہ کیا گیا کہ جس وارڈن کے چالان کم ہوں گے اس کی سی ٹی او کے سامنے پیشی ہو گی۔ خبر کے مطابق ٹریفک وارڈنز کی روزانہ کی ڈائری سی ٹی او کو بھجوائی جا رہی ہے اگر یہ خبر درست ہے تو اگلا سوال یہ ہے کیا ٹریفک وارڈنز اپنے اعلیٰ حکام کے دباؤ پر ناحق موٹر سائیکل سواروں کا چالان کاٹتے ہیں اور کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اس اہم معاملے پر توجہ دیں گی؟

ماضی میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا فریضہ ٹریفک پولیس کے سپرد تھا لیکن پچھلے کسی دورِ حکومت میں ٹریفک وارڈنز کے نام سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرتی کی گئی اور ان کی معقول ماہانہ تنخواہ مقرر کی گئی۔ توقع یہ تھی کہ وارڈنز ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کر کے رکھ دیں گے اور اب کسی جگہ ٹریفک بلاک نظر نہیں آئے گی۔ شروع شروع میں صورت حال کچھ بہتر رہی، لیکن پھر معاملات اسی ڈگر پر چلنے لگے جس ڈگر پر ٹریفک پولیس کے زمانے میں چل رہے تھے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹریفک کی بے ترتیبی اور اس کا بے ہنگم پن اب بھی اپنی جگہ موجود ہے، اکثر چوکوں میں اور چوراہوں پر ٹریفک وارڈنز دو دو یا تین تین کی ٹولیوں میں ٹریفک سے لا تعلق گپوں میں مشغول نظر آتے ہیں اور ٹریفک جام ہوتی ہے۔ وارڈنز پر کروڑوں روپے ماہانہ خرچ کرنے کے باوجود مجموعی طور پر کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ ٹریفک کے انتظام کے مجموعی ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ٹریفک وارڈنز کو موٹر سائیکل والوں اور رکشہ والوں کے چالان کاٹنے سے فرصت ملے تو وہ ٹریفک کی طرف توجہ دیں؟ وہ افسروں کی بات سنیں یا عوام کا خیال رکھیں۔؟

مزید :

رائے -کالم -