نیب کی بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے عملی کاوشیں

قومی احتساب بیورو (NAB) کے چیئرمین قمرزمان چوہدری نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ادارے میں جہاں اور بہت سی نئی اصلاحات متعارف کروائیں،وہاں انہوں نے نیشنل اینٹی کرپشن سٹریٹجی بنائیَ جس کو بدعنوانی کے خلاف موئثر ترین حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا گیاہے۔ بدعنوانی کا خاتمہ نیب کی اولین ترجیح ہے یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے نیب نے جو زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ ، شواہد اور قانون کے مطابق بدعنوان عناصر سے 285 ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی جو ایک ریکارڈ کامیابی ہے۔
قومی احتساب بیورو نے اپنی موجودہ افرادی قوت کو بڑھانے اور ان کی استعداد کار میں اضافہ کے لئے جہاں میرٹ پر 104 نئے تحقیقاتی افسران بھرتی کئے ہیں، وہاں ان کو جدید خطوط پر پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں تربیت دی گئی۔ ان کی تربیت کی تکمیل کے بعد تفتیش اور تحقیقات کا نہ صرف معیار بڑھا ہے بلکہ تحقیقاتی افسروں کے کام میں اب مزید تیزی آئی ہے۔ نیب اب پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں اپنا کام کرنے کا اہل ہے۔
قومی احتساب بیورو کے افسران کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے اور اسے مزید بہتر بنانے کے لئے جامع معیاری گریڈنگ سسٹم شروع کیا گیا ہے، اس گریڈنگ سسٹم کے تحت نیب کے تمام علاقائی بیور وز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف ان کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جاتاہے، بلکہ ان خامیوں کو دور کرنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے۔ نیب نے ایک موثر مانیٹرنگ اینڈ ایلیویشن نظام بنایا ہے جس کے تحت تمام شکایات پر پہلے دن سے ہی unique identification number لگایا جارہا ہے ۔اب انکوائریوں، انوسٹی گیشن، احتساب عدالتوں میں ریفرنس، ایگزیکٹو بورڈ، ریجنل بورڈز کی تفصیل ، وقت اور تاریخ کے حساب سے ریکارڈ رکھنے کے علاوہ موثر مانیٹرنگ اینڈ ایلیویشن سسٹم کے ذریعہ اعدادوشمار کا معیاراور مقدار کا تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے۔نیب نے شکایات کوجلد نمٹانے کے لئے انفراسٹرکچراورکام کرنے کے طریقہ کار میں جہاں بہتری لائی وہاں شکایات کی تصدیق سے انکوائری اور انکوائری سے لے کر انویسٹی گیشن اوراحتساب عدا لت میں قانون کے مطابق ریفرنس دائر کرنے کے لئے ((10 دس ماہ کا عرصہ مقرر کیا۔قومی احتساب بیورو نے اپنے ہر علاقائی دفتر میں ایک شکایت سیل بھی قائم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ نیب نے انویسٹی گیشن آفیسرز کے کام کرنے کے طریقہ کار کا ازسرنو جائزہ لیا ۔ ان کے کام کو مزید موئژ بنا نے کے لئے سی آئی ٹی(CIT) کا نظام قائم کیا گیا ۔ اس نظام کے تحت سینئر سپروائزری افسران کے تجربے اور اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈائریکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر، انویسٹی گیشن آفیسرز اور سینئر لیگل کونسل پر مشتمل سی آئی ٹی(CIT) کا نظام قائم کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف کام کا معیار بہتر ہوا ہے، بلکہ کوئی بھی شخص انفرادی طور پر تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا۔
قومی احتساب بیورو کو مضاربہ /مشارکہ سیکنڈل میں تقریباََ 31,156 درخواستیں موصول ہوئیں۔جن پر قومی احتساب بیورو نے قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے، قومی احتساب بیورو اب تک مضاربہ/ مشارکہ سیکنڈل میں مبینہ طور پر ملوث44 افراد کو گرفتار ان سے لوٹی ہوئی تقریباََ 616 ملین روپے کی رقم ریکور کرنے کے علاوہ ان سے تقریباََ 6ہزار کنال زمین، 10 مکانات اور 12 قیمتی گاڑیاں برآمدکرنے کے علاوہ 28ریفرنس احتساب عدالتوں میں دائر کئے ہیں، تاکہ عوام کی لوٹی ہوئی رقم ملزمان سے ریکور کرکے متاثرین کو واپس کی جاسکیں۔ قومی احتساب بیورو کی کاوشوں کی بدولت ہاؤسنگ سوسا ئیٹیوں کے افراد کی لوٹی ہوئی رقوم برآمد کرکے جب ان کو با عزت طریقے سے واپس کی گئیں۔
قومی احتساب بیورو نے نیب میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پراسیکوشن ڈویژن میں نئے لا افسروں کی تعیناتی عمل میں لائی۔ اب نئے آپریشن ڈویژن کے تحت نئے تحقیقاتی افسروں اور پراسیکوشن ڈویژن میں نئے لا افسروں کی تعیناتی سے دونوں ڈویژن مزید متحرک ہو گئے ہیں۔ قومی احتساب بیورو نے اپنے تحقیقاتی افسروں اور نئے لا افسروں کی جدید خطوط پر استعداد کار کو بڑھانے کے لئے ٹریننگ پروگرامز بھی ترتیب دئیے جہاں ان کو ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کرپشن اور وائٹ کالر جرائم کے سے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کے بارے میںآگاہی فراہم کی گئی یہی وجہ ہے کہ قومی احتساب بیورو کا مجموعی طور پر 1999ء سے اب تک Conviction Rate تقریباً6 فی صد ہے۔
پلی بارگین کا قانون پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً 30 ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک شامل ہیں رائج ہے۔پلی بارگین میں ملزم صرف جیل نہیں جاتا، لیکن سزا کے تمام لوازمات اس پر لاگو ہوتے ہیں۔پلی بارگین کے بعد ملزم کی معاشرے میں وہ عزت نہیں رہتی جو پہلے ہوتی ہے ۔ پاکستان میں ملزم اپنے جرم کا اقرار کرتا ہے اور لوٹی ہوئی رقم کے ساتھ Kibor rate کی صورت میں مارک اپ بھی ادا کرتا ہے۔اس لئے یہ تاثر بالکل درست نہیں کہ پلی بارگین کا مطلب لوٹی گئی رقم کی واپسی کے ساتھ چوروں اور لٹیروں کی معافی ہے۔ اگر کرپشن میں ملوث کوئی سرکاری ملازم پلی بارگین کرتا ہے تو اسے فوری طور پر سرکاری ملازمت سے ڈسمس کردیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا اور اگر کوئی منتخب عوامی نما ئندہ کرپشن کے الزام میں نیب سے پلی بارگین کرتا ہے تو وہ آئندہ دس سال کیلئے نا اہل ہو جا تا ہے اور کوئی الیکشن نہیں لڑسکتا اور اگر کوئی کاروباری شخص نیب سے پلی بارگین کرتا ہے تو بنک سے اس کا لین دین ختم کر دیا جاتا ہے اور وہ کوئی اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا۔پلی بارگین کی منظوری معزز احتساب عدالت سے لی جاتی ہے۔ پلی بارگین سے حاصل پوری رقم قومی خزانہ میں جمع کروائی جاتی ہے اور اس میں نیب افسران کو کوئی حصہ نہیں ملتا۔
نوجوان کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ قومی احتساب بیورونے ہائر ایجوکیشن کے ساتھ مل کر ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ وطالبات کو کرپشن کے اثرات سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ایک (MoU) پر دستخط کئے۔ قومی احتساب بیورو کی اس مہم کا مقصد ایک طرف نوجوان نسل کو بدعنوانی کے مضمر اثرات سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔دوسری طرف نوجوانوں کی توجہ اس بات کی طرف بھی باور کروانا تھی کہ آپ ملک کا مستقبل ہیں اگر آپ کو بدعنوانی کے بارے میں آگاہی حا صل ہو گی تو مستقبل میں بدعنوانی پر قا بو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ قومی احتساب بیورونے ہائر ایجوکیشن کے ساتھ مل کر ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس وقت تک تقریباً 42 ہزارکریکٹر بلڈنگ سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے،جبکہ نیب 2017ء کے اختتام پر 50 ہزار کا قیام عمل میں لانے کے لئے پرعزم ہے، کیونکہ اس کے مثبت اور حو صلہ افزاء نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ نیب نے اسلام آباد میں فرانزک سائنس لیبارٹری قائم کی ہے، جس میں ڈیجیٹل فرانزک، دستاویزات اور فنگر پرنٹ کے تجزیئے کی جدید سہولیات میسر ہیں۔ فرانزک سائنس لیبارٹری کے قیام کا مقصد معاشرے سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیب کو جدید آلات سے لیس کرنا ہے ۔ فرانزک سائنس لیبارٹری کے قیام سے ایک تو وقت کی بچت ہوتی ہے دوسری کوالٹی اور سکریسی برقرار رہتی ہے۔
گزشہ سال پاکستان میں سارک انٹی کرپشن سیمینار منعقد ہوا جس میں بھارت سمیت سارک ممالک نے پاکستان کی انسداد بدعنوانی کی کاوشوں کو سراہا اور قومی احتساب بیورو کی تجویز پر سارک انٹی کرپشن فورم کے قیام پر متفق ہو گئے اور پاکستان کو سارک انٹی کرپشن فورم کا پہلا چیئرمین منتخب کرلیا گیاجو کہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔قومی احتساب بیورو نے بدعنوانی کے خاتمے میں تعاون کے لئے چین کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کئے ہیں۔ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط سے چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی اور تجارتی تعاون کے تناظر کے علاوہ دونوں ممالک کی حکومتیں سی پیک کے تحت پاکستان میں جاری منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی، اس کے علاوہ دونوں ممالک بدعنوانی کے خاتمہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھا ئیں گے۔