7اپریل 1453ء کے روز ’’سینٹ رومانس‘‘ دروازے کیے پیچھے ’’جان جسٹینانی‘‘ اپنے آہن پوش بہادر سواروں سمیت دروازے سے باہر نکلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اس کے عقب میں سپہ سالار نوٹاراس اپنے سوار لئے کھڑا تھا۔ طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد لڑائی کے لیے بے تاب عیسائی سپاہی سینٹ رومانس کا دروازہ کھول کر آندھی اور طوفان کی طرح باہر نکلے اور باہر نکلتے ہی ان کا تربیت یافتہ لشکر خود بخود ایک خاص نظم و ضبط میں آگیا۔ جنیوی افواج کا سپہ سالار جان جسٹینانی اپنے سوار دستوں کو لے کر صف آرا ہونے لگا۔ اسی طرح سپہ سالار نوٹاراس نے اپنی صفیں درست کیں اور عیسائی فوجی مسلمان لشکر پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بے حد بے تاب نظر آنے لگے۔ عیسائی لشکر کے عقب میں ’’سینٹ رومانس‘‘ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور اب ان کا لشکر سلطانی افواج کے سامنے دو بدو مبارزت کے لئے طبل جنگ بجانے لگا۔ سلطان محمد خان نے بھی اپنے میمنہ ، میسرہ اور قلب کو آراستہ کرنے کے بعد طبل کا جواب طبل سے دیا۔ اس سے پہلے کہ دونوں طرف کے سپاہی ایک دوسرے پر جھپٹتے، مسلمان افواج میں لاڈلی فوج ینی چری کا یک سوار آغے بڑھا اور وسطی رزم گاہ میں پہنچ کر عیسائی فوجیوں کو مبارزت کی دعوت دی۔ اگلے لمحے ایک جوشیلا عیسائی نوجوان میدان میں اترا۔ دونوں مبارزین ایک دوسرے کے سامنے اپنے گھوڑوں پر بیٹھے اترا رہے تھے ۔ مسلمان سپاہی’’عبداللہ‘‘ تو گویا اپنے دشمن کا منتظر تھا۔ اس نے آتے ہی اپنے مخالف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لوہے سے لوہا ٹکرانے کی آواز فضا میں گونجی اور پہلے چھنا کے ساتھ ہی دونوں لشکروں کے سپاہیوں نے اپنے اپنے نعرے بلند کئے۔ فصیل شہر پر متعین سپاہیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بھی جنگ کا نظارہ کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 108 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دونوں مبارزین کافی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے رہے۔ داؤ پر داؤ کھیلتے رہتے۔ اور بالآخر عبداللہ نے کھیل ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یکایک اپنے حملے تیز کر دیئے۔ رومی سپاہی کے لیے عبداللہ کے کاری وار بچانا مشکل ہونے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کا گھوڑا اپنے لشکر کی جانب سر پٹ دوڑ رہا تھا۔ دعوت مبارزت کا کھیل اس سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور اچانک دونوں لشکروں کے سپاہی نعرے مارتے ہوئے ایک دوسرے پر پل پڑے۔ فصیل شہر سے عیسائیوں کا شور بلند ہوا۔ شہر کی نوجوان لڑکیاں فصیل شہر سے اپنے بہادروں کو ہلہ شیری دے رہی تھیں۔ گھمسان کا رن پڑا اور عثمانی فوج نے جسٹینانی کے سپاہیوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل عیسائیوں کے قدم اکھڑے لیکن پھر اچانک بہادر جسٹینانی نے خود سب سے آگے بڑھ کر اسلامی لشکر کے قلب پر ایک خطرناک حملہ کر دیا۔ وہ ینی چری کے بہادروں کو درہم برہم کرتا ہوا عثمانی پرچم کی جانب بڑھنے لگا۔ جسٹینانی کی تلوار بجلی کی طرح لپک رہی تھی اور اس کا ایک ایک وار عثمانی سپاہیوں کے لیے جرات و شجاعت کی علامت بنتا جا رہا تھا سلطان خود ایک ٹیلے پر کھڑا جسٹینانی کی شجاعت ملاحظہ کر رہ تھا۔ سلطان کے چہرے پر بے اختیار جسٹینانی کے لیے داد و تحسین کے جذبات ابھر آئے۔
قلب کو کمزور ہوتے دیکھا تو سپہ سالار آغا حسن نے اپنے بکھرتے ہوئے ساتھیوں کو مجتمع کیا ور جسٹینانی کے سامنے جنم گیا۔ دونوں لشکر دو گھنٹے تک آپس میں گھتم گتھا رہے۔ اور پھر عیسائی فوجی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت پیچھے کی طرف سمٹنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میدان کارزار عیسائیوں سے خالی ہوگیا۔ شہر کے دروازے اپنے سپاہیوں کے لئے کھول دیئے گئے اور شہریوں نے اپنے بہادروں کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے۔ تمام عیسائی فوجی قسطنطنیہ میں داخل ہوگئے تو سینٹ رومانس کا دروازہ بند کر دیا گیا اور رومی محصور ہو کر ترکوں کو ان کے حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے۔ قیصر قسطنطنین خود فصیل شہر کے ایک بڑے برج پر موجود تھا۔ فصیل شہر کے آگے ایک چوڑی خندق کھدی تھی جس میں پانی چھوڑ کر اسے بھر دیا گیا تھا۔
سلطان محمد خان کے سپاہیوں نے ’’اربان‘‘ کی بنائی ہوئی توپوں سے فصیل شہر پر گولہ باری شروع کروائی۔ ’’اربان‘‘ کی بڑی توپ جو اس جنگ کی رانی تھی۔ سینٹ رومانس کے عین سامنے نصب تھی۔ اس توپ کا ہر گولہ تیس انچ قطر موٹائی کا تھا۔ اربان خود اس توپ کو چلانے پر مامور تھا۔ جبکہ سلطانی فوج کے چھجہ بردار سپاہی اپنے اپنے ساباط دھکیلتے فصیل شہر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ خندق کی وجہ سے عثمانی سپاہی فصیل شہر کے نزدیک پہنچنے سے معذور تھے۔ جبکہ فصیل پر موجود عیسائیوں کی توپیں عثمانی لشکر پر غضبناک گولے برسا رہی تھیں۔ سلطان محمد خان خود دن بھر اپنے لشکر کی کمان کرتا رہا۔ اور وہ صبح سے لے کر شام تک گھوڑے کی بیٹھ پر بیٹھا ادھر سے ادھر دوڑتا پھر رہا تھا۔
غروب آفتاب کے ساتھ ہی دونوں طرف سے جنگ بندی ہوگئی۔ دن بھر کے تھکے ہارے سپاہی اپنے پڑاؤ میں واپس آئے تو اپنے لباس سے اسلحہ الگ کئے بغیر اپنے اپنے خیموں میں لیٹ گئےء۔ مسلمان سپاہیوں نے دن بھر کی لڑائی میں فصیل شہر کے نزادیک پہنچنے کی جتنی بھی کوششیں کی تھیں وہ تمام ناکام رہی تھیں۔ چنانچہ سلطان محمد خان نے اپنے سالاروں کی مشاورت طلب کی اور فصیل شہر کی خندق کو پاٹنے کے مشورے مانگے۔ اگلے روز مسلمانوں نے علی الصبح خندق کو جگہ جگہ سے ملبے کے ذریعے بھرنا شروع کر دیا۔ یہ شہر سے بیرونی خندق تھی اور زیادہ گہری نہ تھی۔ دوپہر تک بڑی مشکل کے ساتھ خندق کو کئی جگہ سے پاٹ کر راستے بنائے گئے اور اس طرح عثمانی فوج فصیل شہر کے عین نیچے پہنچ گئی۔ لیکن فصیل کے اوپر ان کا کوئی بس نہ چل سکا۔ اوپر سے عیسائیوں نے روغن نقطہ جلا جلا کر ان پر پھینکنا شروع کر دیا۔ جلتی ہوئی تیل کی ہانڈیاں ترکوں کی ڈھالوں سے ٹکرا کر ٹوتتیں تو خاصا جانی نقصان کرتیں مجبورا عثمانی فوج کو فسیل کے نیچے سے پسپا ہونا پڑا ارو اس طرح یہ دن بھی بے نیل و مرام گزر گیا۔
اگلے روز بھی جوش و جذبے سے لبریز عیسائیوں نے ترکوں کی ایک نہ چلنے دی۔
اب سلطان نے ایک اور ترکیب سوچی۔ اس نے لکڑی کے مضبوط تختے جڑوا کر اونچے اونچے چوبی مینار بنوائے جو فصیل شہر کے برابر بلند تھے۔ لکڑی کے ان میناروں کے نیچے پہئے لگائے گئے جن کی بدولت انہیں آسانی سے حرکت دی جا سکتی تھی۔ ان چوبی میناروں کے اوپری سرے کے ساتھ لکڑی کی لمبی لمبی سیڑھیاں باندھی گئیں اور پھر سلطان نے اپنے بہادر سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان میناروں کو خندق کے کنارے لے جا کر اور ان سیڑھیوں کو اوپر اٹھا کر ان کا دوسرا سرا قلعے کی دیوار پر رکھ دیں۔ اس طرح خندق کے اوپر ایک پل سا بندھ جانے کی توقع تھی۔ ان چوبی میناروں کا سارا کام سپہ سالار آغا حسن نے اپنے ہاتھ لیا اور خود سب سے پہلے اپنے مینار کو خندق کے کنارے لے جا کر اس کی سیڑھی کو قلعے کی دیوار پررکھ دیا۔
ینی چری کے بہادر، سیڑھیوں کے ان پلوں پر سے گزرتے ہوئے فصیل شہر پر پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن محصورین نہایت مستعدی اور چابکدستی کے ساتھ ان میناروں پر رال کے جلتے ہوئے گولے پھینکنے شروع کر دیئے۔ لکڑی کی سیڑھیوں نے آگ پکڑ لیا ور سلطانی فوج کے مینار جلنے لگے۔ سلطان کے سپاہی بڑی مشکل سے اچھا خاصا جانی نقصان کروانے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ اور اس طرح ان میناروں اور سیڑھیوں کے جلنے کی وجہ سے قلعہ کشائی کی یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہو سکی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)