عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 110
آج باقاعدہ جنگ شروع ہوئے ساتواں روز تھا۔ قاسم بن ہشام پچھلے چند دن سے سلطانی لشکر میں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ آج دن بھر گھوڑے کی پیٹھ پر پورے میدان جنگ میں دوڑنے پھرنے کے بعد سلطان محمد خان جب اپنے خیمے میں لوٹا تو قاسم بن ہشام اس کا منتظر تھا۔ قاسم کا چہرہ دھول سے اٹا ہوا تھا اور اس کے وجود میں تھکاوٹ کے آثار تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ کسی اہم مہم سے لوٹا ہے۔۔۔قاسم نے تھکے ہوئے سلطان کو ایک چونکا دینے والی خبر سنا کر مسرور کر دیا۔ قاسم نے سلطان کو بتایا۔
’’سلطان معظم! میں پچھلے پانچ روز سے آپ کے حکم کے مطابق شہر میں موجود تھا۔ مجھے اپنے مصدقہ ذرائع سے یہ خبر ملی ہے کہ آج سے صرف دو روز بعد یعنی 15اپریل کو جنیوا کے نو بڑے جہاز غلہ اور گولہ بارود لے کر قسطنطنیہ پہنچنے والے ہیں۔ وہ آبنائے باسفورس کو لڑتے بھڑتے عبور کرتے ہوئے گولڈن ہارن کی بندرگاہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
سلطان نے اپنے ماہر جاسوس قاسم بن ہشام کی اطلاع سنی تو خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ سلطاننے اپنے امیر البخر کو فوری طور پر پیغام بھجوایا کہ وہ ان جہازوں کو صحیح سلامت گرفتار کرنے کی کوشش کرے۔ اور پھر 15اپریل کے روز قاسم کی اطلاع درست ثابت ہوئی۔ جنیوا کے چار غلے اور گولا بارود سے لدے جہاز اچانک آبنائے باسفورس کے دھانے پر نمودار ہوئے۔ یہ جہاز عثمانی بحریہ کے جہازوں کی نسبت زیادہ بڑے اور مضبوط تھے۔ ترکی امیر البحر ’’بلوط اغلن‘‘ نے ان جہازوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن جنیوی ملاح جذبہ شہادت سے سرشار تھے۔ وہ ترکی جہازوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے صاف بچ کر نکل گئے اور ’’گولڈن ہارن‘‘ میں داخل ہو کر شہر والوں کو یہ گراں قدر امداد پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 109پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان کو اپنے امیر البحر ’’بلوط اغلن‘‘ کے ناکام ہونے کی اطلاع ملی تو وہ برافروختہ ہوگیا۔ سلطان غصے کی حالت میں اٹھا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر خود سمندر کے کنارے جا پہنچا۔ جنیوی جہازوں کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی خبر نے قسطنطنیہ کے شہریوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ عوام تک اڑتی اڑتی یہ خبر بھی جا پہنچی کہ ابھی جنیوی بیڑے کے مزید پانچ جہاز بھی ’’بحر مارمورا‘‘ میں موجودہیں جو کچھ دیر بعد آبنائے باسفورس میں داخل ہونے والے ہیں۔ لوگ جوق در جوق عقبی فصیل کی جانب دوڑے اور آن کی آن میں قسطنطنیہ کے ہزاروں شہری ایک جم غفیر کی شکل میں فصیل شہر پر نظر آنے لگے۔ ادھر عثمانی بیری فوج کے ہزاروں سپاہی اس دلچسپ بحری جنگ کا ولولہ انگیز منظر دیکھنے کے لیے آجمع ہوئے تھے۔ سلطان اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار نہایت بے چینی کے عالم میں اپنے امیر البحر کو انتہائی سخت احکامات بھیج رہا تھا کہ وہ ان پانچ جنیوی جہازوں کو کسی صورت آبنائے باسفورس عبور نہ کرنے دے۔
ہزاروں نگاہین سمندر کی لہروں پر مرکوز تھیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ جب جنیوی جہاز سمندر میں داخل ہوئے تو عثمانی بحریہ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ان جہازوں پر حملہ کرکے ان کی لمبی قطار کو توڑ دیا اور وہ ایک جگہ آگے پیچھے اور پہلو بہ پہلو اکٹھے ہوگئے۔ عثمانی جہازوں نے چاروں طرف سے جنیوی بحریہ کے ان پانچوں جہازوں کو گھیر لیا اور ان پر آتش و آہن برسانے لگے۔ عثمانی جہاز جب پوری طرح مسیحی جہازوں پر غالب آگئے تو بلوط اغلن نے اپنے جہازوں کو مسیحی جہازوں کے ساتھ لگا دیا۔ اسلامی بحریہ کے مجاہدوں کی یہ خواہش تھی کہ وہ کسی طرح مسیح جہازوں پر سوار ہو جائیں اور ان کے ملاحوں کو قتل کرکے ان کو گرفتار کر لیں۔ لیکن جنیوی جہاز اس قدر بڑے اور بلند تھے کہ عثمانی سپاہی اپنے جھوٹے اور پست جہازوں سے ان پر کسی طرح نہ چرھ سکے۔
شروع شروع میں جب عثمانی جہازوں نے عیسائیوں کو گھیر لیا تو دیکھنے والی نگاہوں کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ پانچوں جہاز ضرور گرفتار ہو جائیں گے۔ لیکن پھر اچانک فصیل شہر کی جانب سے اس وقت فلک شگاف شور بلند ہوا جب محصور عیسائی جہاز ترکوں کا محاصرہ توڑ کر بڑی تیزی سے ’’گولڈن ہارن‘‘ کے دروازے پر آپہنچے۔ محصورین نے فوراً زنجیر نیچے کر دی اور جنیوی جہاز ’’گولڈن ہارن‘‘ میں داخل ہوگئے۔ سلطان محمد خان نے اپنی بحری فوج کی اس ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کو سخت ملال ہوا۔ عیسائی جہاز ہاتھ سے نکلنے لگے تو سلطان سے ضبط نہ ہو سکا اور اس نے بے اختیار ہو کر اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا۔
فضا میں اہل قسطنطنیہ کے نعرہ ہائے مسرت گونج رہے تھے۔ جنیوی جہازوں کی اس شاندار فتح کا اخلاقی اثر محصورین پت بہت اچھا پڑا اور ان میں جرات و استقلال کی ایک نئی روح پیدا ہوگئی۔ سلطان نے غصے کے عالم میں اپنے امیر البحر کو بلوایا اور غم و غصے سے بے قابو ہو کر امیر البحر پر ہاتھ اٹھا دیا۔ لیکن امیر البحر کی اس میں کچھ خطا نہ تھی۔ اس نے تو اپنے چھوٹے جہازوں کے ذریعے عیسائیوں کے دیو ہیکل جہازوں کو محصور کر لیا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے لئے ان جہازوں پر سوارہونا ممکن نہیں تھا۔ البتہ سلطان کی تنبیہ سے امیر البحر مستعد ہوگیا۔ اور اس کے بعد کسی اور جہاز کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ در دانیال کو عبور کرکے بحر مارمورا میں داخل ہوسکے۔ ان پانچ جہازوں میں جو فوج سوار ہو کر آئی تھی یہ گویا قسطنطینہ کے لئے آخری بیرونی امداد تھی۔ سلطان نے محاصرہ کے کام میں انتہائی درجہ کی مستعدی دکھائی۔ بار بار نقصان اٹھانا پڑا۔ بار بار حملے ناکام اور بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ محصورین کی ہمتیں اپنی کامیابیوں کو دیکھ دیکھ کر اور بھی زیادہ بڑھتی رہیں۔ شہر کے اندر سامان رسد کی مطلق کمی نہ تھی۔ وہ برسوں محصور رہ کر مدافعت پر ثابت قدم رہنے کا ارادہ کر چکے تھے۔ ان کو یہ بھی توقع تھی کہ ہنگری کا بادشاہ ’’ہونیاڈے‘‘ اپنے عہد نامہ صلح کو توڑ کر ضرور شمال کی جانب سے حملہ آوار ہوگا اور قسطنطنیہ کا محاصرہ اٹھ جائے گا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے سلطان محمد خان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو یقیناًمحاصرہ اٹھا کر چل دیتا اور اس کام کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا۔ مگر سلطان اپنے ارادے کا پکا اور ہمت کا دھنی تھا۔ اس کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی اور اس کے ارادے ہر ناکامی کو دیکھ کر اور زیادہ مضبوط ہوتے گئے۔
سلطان محمد خان جب ’’ادرنہ‘‘ سے چلا تھا تو اس نے اپنے ہمراہ علماء، فضلا، عابدوں اور زاہدوں کی ایک جماعت بھی رکھی تھی۔ ان برگزیدہ لوگوں کی صحبت ے مستفیض ہونے کا خیال اس کو شروع ہی سے تھا۔ درویش صفت سلطان مراد خان ثانی نے اپنی زندگی کے آخری چھ سالوں میں سلطان محمد خان کو ’’ایدین‘‘ کے علماء و صوفیاء کی محفل میں بھیج دیا تھا۔ انہی نیک لوگوں کی صحبت سے اس کے ارادوں میں استقلال اور حوصلوں میں بلندی پیدا ہوئیتھی۔ دوران محاصرہ بھی وہ ان لوگوں سے مشورے کرتا رہا۔ اپنی پہلی بحری شکست کے بعد محاصرہ میں مزید سختی پیدا کرنے کیلیے ایک روز سلطان محمد خان کو ایک ایسی تاریخی تدبیر سوجھی جس نے سلطان محمد خان ثانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ’’سلطان محمد فاتح‘‘ بنا دیا۔
سلطان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ آبنائے باسفورس کے اس حصہ میں جہاں پانی زیادہ گہرا تھا، ترکی بیڑا عیسائیوں کے طاقتور جہازوں کے مقابلہ میں مشکل سے کامیاب ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ کشتیوں کی ایک بڑی تعداد اور بہت سے بحری جہاز جو عیسائی بحریہ سے نسبتاً چھوٹے تھے، بندرگاہ کے بالائی حصے میں منتقل کر دیئے جائیں جہاں پانی تنگ اور چھلچھلا تھا۔ اور جس میں یونانی اور جنیوی جہاز اپنے قد و قامت کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکتے تھے۔ بندرگاہ کا بالائی حصہ ’’گولڈن ہارن‘‘ پر مشتمل تھا اور گولڈن ہارن پر کوئی زد نہ پڑ سکتی تھی۔ محاصرین کی تمام ہمت خشکی کی جانب صرف ہو رہی تھی۔ خص کر ’’سینٹ رومانس‘‘ والے دروازے کی جانب آلات قلعہ کشائی زیادہ کام میں لائے جا رہے تھے۔ لہٰذا اہل قسطنطنیہ بھی باقی اطراف سے بے فکر ہو کر اسی جانب اپنی پوری قوت مدافعت صرف کر رہے تھے۔
سلطان نے سوچا کہ گولڈن ہارن کی جانب یعنی سمندر کی طرف سے اگر شہر پر حملہ آور ہو سکے تو رومی افواج کی توجہ دو طرف تقسیم ہو جائے گی اور اس طرح فصیل شہر کو توڑ کر اس میں داخل ہونا ممکن ہو سکے گا۔ مگر سمندر کی جانب سے حملہ اس وقت ہو سکتا تھا کہ گولڈن ہارن کے دہانہ پر آہنی زنجیر نہ ہوتی اور جہاز اس میں داخل ہوسکتے۔ چنانچہ سلطان محمد خان نے اپنی ذہانت اور آہنی عزم و استقلال کی ایک غیر فانی مثال دی۔ سلطان کی تجویز سن کر آغا حسن، احمد کدک پاشا اور محمود پاشا جیسے سالار ہکا بکا رہ گئے۔ سلطان ایک ناممکن کام کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)