عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 111
سلطان نے یہ کیا کہ آبنائے باسفورس کے گہرے پانی میں گشت کرنے والے اپنے جہازوں اور کشتیوں کو ’’گولڈن ہارن‘‘ میں داخل کرنے کے لیے جہازوں کو پانی کی بجائے خشکی پر چلانے کی عجیب و غریب تجویز پیش کی۔ سلطان محمد خان کا فیصلہ دنیا کی تاریخ میں ایک محیر العقول یادگار بننے والا تھا۔ اس کا فیصلہ یہ تھا کہ جہازوں کو گولڈن ہارن میں پہنچانے کے لیے انہیں دس میل تک خشکی پر چلا کر لے جائے گا اور اس غرض کے لیے باسفورس کے مغربی ساحل سے جہاز خشکی پر چلا کر لے جائے گا اور اس غرض کیلیے باسفورس کے مغربی ساحل سے جہاز خشکی پرچڑھا کر انہیں ایک ترچھے راستے سے گولڈن ہارن کے بلائی شمالی کنارے تک پہنچایا جائے گا اور وہاں سے انہیں ’’گولڈن ہارن‘‘ میں ڈال دیا جائے گا۔
خشکی کا یہ درمیانی علاقہ تقریباً دس میل لمبا ناہموار اور پہاڑی اتار چڑھاؤ سے بھرپور تھا۔ سلطان نے ماہ جمادی الاول کی چودہ تاریخ کو جب چاند کی چاندنی ساری رات پورے علاقے کو روشن رکھ سکتی تھی ، باسفورس سے لے کر بندرگاہ گولڈن ہارن تک برابر لکڑی کے تختے بچھوا دیئے۔ یہ سلطان کی اولو العزمی کا ایک محیر العقول عجوبہ تھا۔ سلطان نے یہ کام ایک رات میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے دس میل کے راستے پر تختے بچھوا کر ان پر چربی ملوا دی اور چکناہٹ سے لکڑی کے وہ تمام تختے ایک خشک سمندر بن گئے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 110پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فصیل شہر سے دن بھر لوگ سلطانی سپاہیوں کو تختے بچھاتے اور چربی ملتے دیکھتے رہے۔ لیکن وہ حیران تھے کہ آخر مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ رات ہوتے ہی سلطانی سپاہیوں نے اپنے بہترین 80جہازوں کو کھینچ کر لکڑی کے تختوں پر چڑھا لیا۔ ان 80جہازوں کی ٹرین جب خشکی پر چڑھ آئی تو ان میں باقاعدہ ملاحوں اور بحری سپاہیوں کو سوار کر دیا۔ اور پھر ہزار ہا آدمیوں نے دونوں طرف سے ان جہازوں کو دھکیلنا شروع کردیا۔ اس مقصد کے لیے ہوا کے جھونکوں نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ چنانچہ سلطان نے اپنے جہازوں کے بادبان کھلوا دیئے۔ جہازوں کی اس ٹرین کو کھینچنے کیلیے انسانوں کے علاوہ بیلوں نے بھی اپنا پورا زور لگایا۔ راستہ طویل اور دشوار گزار تھا۔ چاند کی چاندنی ہر طرف پھیلی ہو ئی تھی اور چاندنی رات میں ہزاروں آدمیوں کا شور و غل، خوشی کے نعرے اور فوجی گیت، فصیل شہر پر موجود عیسائی سنتے رہے۔ اور یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتے رہے کہ آخر آج مسلمان کیا کر رہے ہیں۔
’’قسطنطنین‘‘ نے خود فصیل پر پہنچ کر مسلمانوں کی نقل و حرکت کو ملاحظہ کیا۔ اسے عثمانی فوج کے باجے سنائی دیئے لیکن اس سے زیادہ وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ مسلمان خوشی منا رہے ہیں۔ رات بھر80جہازوں کو یہ جلوس سفر کرتا رہا اور قسطنطنی کے عیسائی آخر وقت تک کچھ نہ سمجھ سکے۔ بالآخر جب صبح کے اجالے نے راز سے پردہ اٹھایا تو سلطانی لشکر کے 80جہاز اور بھاری توپ خانہ ’’گولڈن ہارن‘‘ میں منتقل ہو چکا تھا۔
اہل قسطنطنیہ نے جب عثمانی بحریہ کے 80اسلحہ بردار جہازوں کو گولڈن ہارن میں موجود دیکھا تو پورے شہر کی سانسیں رکنے لگیں۔ یہ کیا ہوگیا تھا؟۔۔۔یہ تو ناممکن بات ممکن ہوگئی تھی۔ اہل قسطنطنیہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ عثمانی جہازوں نے فصیل شہر کے نیچے ایک پل بنادیا تھا اور اپنی توپوں کو مناسب مقامات پر رکھ کر اس طرف کی فصیل پر گولہ باری کرنے کی تیاری شروع کردی تھی۔ یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حواس جاتے رہے قسطنطنین کے جو جہاز گولدن ہارن میں موجود تھے وہ سب کے سب گولڈن ہارن کے دہانہ کے قریب آہنی زنجیر کے متصل صف بستہ تھے تاکہ کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیں۔ شہر کے قریب بندرگاہ کی نوک پر ان کو رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ قسطنطین کے جہازوں نے عثمانی بحریہ کو گولڈن ہارن میں دیکھا تو ان پر حملہ کرنے کیلیے آگے بڑھے۔ بندرگاہ کے دونوں کناروں پر سلطان محمد خان نے فی الفور اپنا توپ خانہ نصب کروا دیا تھا۔ عثمانی توپ خانے نے مسیحی جہازوں پر گولہ باری کی اور جو جہاز بھی آگے بڑھا اسے بھاری گولوں کا نشانہ بنا کر گولڈن ہارن میں غرق کر دیا۔ اربان کی توپیں دھڑا دھڑ گولے پھینک رہی تھیں اور اس جنگ میں یہ وہ موقع تھا جب عثمانی توپخانے نے سب سے زیادہ خدمات انجام دیں۔ اس طرح یکایک سمندر کی طرف سے حملہ ہونے پر عیسائیوں کو اپنی طاقت تقسیم کرنے پڑی اور وہ مجبور ہوگئے کہ شہر کی اس جانب مدافعت اور حفاظت کے لیے زبردست فوج متعین کریں۔ گولڈن ہارن کا پانی زیادہ گہرا نہ تھا۔ چنانچہ عثمانی جہاز نہایت آسانی کے ساتھ ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔ سلطان نے گولڈن ہارن پر ایک پل تعمیر کرنے کا حکم دیا اور یوں شہر کی یہ شمالی فصیل بھی خطرناک محاصرے اور یلغار کی زد میں آگئی۔
یہ24مئی 1453ء کا دن تھا۔ اسی روز قسطنطنین نے سلطان کے پاس پیغام بھیجا۔
’’آپ جس قدر خراج مجھ پر مقرر کر یں میں ادا کرنے کو تیار ہوں۔ مجھ کو اپنا باجگزار بنا کر قسطنطنیہ میرے ہی پاس رہنے دیجئے۔‘‘
لیکن سلطان کو اس وقت اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ وہ شہر کو فتح کر لے گا۔ چنانچہ اس نے قسطنطین کو جواب دیا’’اگر تم اطاعت قبول کرتے ہو تو تم کو یونان کا جنوبی حصہ دیا جا سکتا ہے لیکن قسطنطنیہ کو میں اسلامی سلطنت میں شامل کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
سلطان جانتا تھا کہ قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت جو سلطنت عثمانیہ کے بیچوں بیچ واقع ہے جب تک قائم رہے گی خطرات اور مصائب کا سدباب نہ ہوگا۔ وہ قسطنطنین اور اس کے پیش رو قیاصرہ کی مسلسل شرارتوں سے بخوبی واقف تھا۔ اور پھر اب تو قسطنطنیہ فتح ہرنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا۔ چنانچہ قیصر کے ایلچی سلطانی خیمے سے بے نیل و مرام لوٹ گئے۔ اس دوران خشکی کی جانب سے برابر حملے جاری تھے۔ لیکن قسطنطنیہ کی ان زبردست دیواروں پر جو ایک ہزار سال سے دشمنوں کا مقابلہ کر رہی تھیں ہنوز ان حملوں کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوا تھا۔ اب عثمانی توپیں دو اطراف سے شہر کی فصیلوں پر زبردست گولہ باری کر رہی تھیں۔ اور بالآخر سات ہفتوں کی متواتر گولہ باری کے بعد قسطنطنیہ کی فصیلوں میں پہلی بار تین مختلف مقامات سے بڑے بڑے شگاف نمودار ہوگئے۔مورخ گبن لکھتا ہے کہ’’وہ فصیلیں جو صدیوں سے ہر دشمن کے تشدد کا مقابلہ کر رہی تھیں عثمانی توپوں نے ان کا ھلیہ بگاڑ دی اور ان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑگئیں۔۔۔اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب سینٹ رومانس کے دروازے کے قریب موجود چاروں برج 30انچ قطر کے گولوں کا شکار ہو کر زمین پر آگرے اور سطح کے برابر ہوگئے۔ اب سلطان محمد خان کو اپنے آخری حملے کی کامیابی کا یقین ہو چکا تھا‘‘
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)