عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 112
سلطان نے قسطنطنین کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر وہ شہر کو اس کے حوالے کر دے تو رعایا کے جان و مال سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا اور ’’موریا‘‘ کی حکومت اسے دے دی جائے گی لیکن قسطنطنین نے اسے منظور نہ کیا۔ چنانچہ سلطان محمد خان نے اپنے لشکر میں اعلان کروا دیا کہ 20جمادی الاول یعنی 29مئی کے روز آخری اور فیصلہ کن حملہ وگا۔19جمادی الاول 857ھ بمطابق 28مئی 1453ء کو سلطان محمد خان نے اپنی فوج میں پھر اعلان کروایا کہ کل علی الصبح شہر پر ہر طرف سے آخری حملہ ہوگا۔ فوج کو شہری تاخت و تاراج کی اجازت دی جائے گی۔ مگر اس شرط پر کہ وہ سرکاری عمارات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔ا س کے علاوہ کوئی عثمانی سپاہی کسی نہتے، اسلحہ ڈالنے والے، امن طلب کرنے والے، ضعیف، بوڑھے اور بچوں وغیرہ کو ہاتھ نہ لگائیں گے۔ یہ خبر سنتے ہی کہ صبح کو فیصلہ کن حملہ ہوگا۔ مسلمانوں کے لشکر میں رات بھر خوشی کے نعرے بلند ہوتے رہے۔
ادھر شہر کے اندر قصر شاہی میں قسطنطنین نے اپنے سپہ سالاروں، عمائدین سلطنت اور امرا ء شہر کو مدعو کرکے ایک جلسہ منعقد کیا۔ اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ صبح فیصلہ کن حملہ ہونے والا ہے ۔ چنانچہ اس نے شہریوں کو آخری دم تک لڑنے اور مرنے مارنے کی ترغیب دی اور خود بھی بھرے مجمع میں خداوند یسوع مسیح کی قسم کھا کر کہا کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک ترکوں کا مقابلہ کرے گا۔ جلسہ ختم ہوا تو تمام سالار اپنی اپنی جگہوں پر زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے لیے پہنچ گئے۔ قیصر اس جلسے سے فارغ ہو کر سینٹ صوفیاء کے گرجے میں آیا اور اپنی آخری عبادت میں مصروف ہوگیا۔ آیا صوفیاء میں ہر پادری کے چہرے پر خوف اور پچھتاوے کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ قیصر ’’آیا صوفیاء‘‘ میں عبادت سے فارغ ہو کر اپنے محل میں آیا جہاں یاس و ہراس چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ وہاں چند لمحے آرام کرنے کے بعد وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور ’’سینٹ رومانس‘‘ کی طرف آیا جہاں محاصرین کے حملہ کا بہت زور تھا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 111پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عثمانی فوج رات بھر ذکر و تسبیح اور دعاؤں میں مصروف رہی۔ خود سلطان محمد خان نماز فجر سے فارغ ہو کر علماء اور درویشوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے آخری حملہ کی کامیابی کیلئے دعا کی درخواست کی۔ اس مجمع علماء میں سلطان کے پیر و مرشد ’’حضرت ایدنی رحمتہ اللہ علیہ‘‘ بھی موجود تھے۔سلطان کے پیرو مرشد نے آخری حملہ کے روز اپنے لئے ایک الگ چھولداری نصب کروائی اور باہر ایک دربارن کو بٹھا دیا کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے۔اور اس طرح سلطان کے مرشد خود دعا میں مصروف ہوگئے۔ سلطان محمد خان نے طلوع آفتاب سے کچھ دیر پہلے اپنے لشکر کو صف آراء کرکے ان کے سامنے ایک ولولہ انگیز تقریر کی جس میں یہ تاریخی جملہ بولا۔
’’آج ہم ظہر کی نماز ’’آیا صوفیاء‘‘ میں ادا کریں گے۔‘‘
سلطان نے تقریر ختم کرکے اپنے سالاروں کو بھرپور حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ آج29مئی1453ء کا دن تھا۔ عثمانی فوج نے مختلف سمتوں سے حملہ کیا۔ توپوں اور منجنیقوں نے جابجا شہر کی فصیل میں سوراخ کرنے شروع کر دیئے۔ حملہ ہر طرف سے ہو رہا تھا لیکن اس کا زیادہ زور زسینٹ رومانس کے دروازے پر تھا۔ عثمانی فوج نے جگہ جگہ سے خندق کو پاٹ دیا اور خندق کو اوپر سے عبور کرنے کے لی سیڑھیاں اور کمندیں ڈال دیں۔ اور یوں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی آگ اور کون کا خوفناک کھیل شروع ہوگیا۔ ’’سینٹ رومانس‘‘ کی دیوار تو ترکی توپوں کی گولہ باری سے پہلے ہی مجروح ہو چکی تھی۔ چنانچہ مسلمان سپاہیوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیوار کے رخنوں کو استعمال کیا اور شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ مگر ہر مرتبہ ان کی کوشش نہایت سختی سے ناکام بنا دی گئی۔ کئی مرتبہ عثمانی لشکر کے بہادر شہر کے برجوں اور فصیل کے شکستہ حصوں پر چڑھ جانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر اندر سے ’’جسٹینانی‘‘ اور ’’نوٹاراس‘‘ کے سپاہی، قسطنطنیہ کے عام شہری حتیٰ کہ ان کی عورتیں اور بچے تک بھی لڑنے اور مدافعت کرنے میں مصروف ہوگئے ہر طرف یہی حالت تھی۔۔۔سمندر اور خشکی ہر دو اطراف سے جوش و خروش کے ساتھ حملہ جاری تھا ایک عجب ہنگامہ بپا تھا۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ مگر دونوں طرف سے کوئی فریق ذرہ بھر دبنے کے لئے تیار نہ تھا۔ قسطنطین خود گھوڑے پر بیٹھا صبح سے دوپہر تک بغیر کچھ کھائے پئے ادھر سے ادھر دوڑتا رہا۔ جان جسٹینانی نے تلوار بازی کے ایسے جوہر دکھائے کہ سلطان محمد خان انگشت بدنداں رہ گیا اور بے اختیار ہو کر یہ خواہش کرنے لگا کہ ۔۔۔’’کاش! یہ شخص میری فوج میں ہوتا ’’دولت عثمانیہ۔۔۔دوپہر تک عثمانی فوج کاایک سپاہی بھی شہر میں داخل نہ ہو سکا۔ عیسائیوں نے اپنے مرکز ملت کو بچانے کے لیے حیرت انگیز شجاعت کا ثبوت دیا اورہر سپاہی جان مار کر لڑا۔ وہ ہر مرتبہ ترکوں کی باڑھ کو فصیل شہر پر بے حد پامردی سے روکتے۔ تلواروں سے تلواریں ٹکراتیں اور تک سپاہی عیسائیوں کا جانی نقصان کرنے کے بعد یا شہید ہوجاتے۔۔۔اور یافصیل سے گر جاتے۔
لیکن سلطان محمد خان اپنی ابتدائی ناکامیوں سے متاثر نہ ہوا۔ وہاںیک عزم کیس اتھ اٹھا اور فصیل شہر کے نزدیک ایک مقام پر اس نے دو رکعت نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم دیا۔ زمین کا وہ حصہ جہاں سلطان اور اس کے ساتھیوں نے نماز ادا کی ہمیشہ کے لئے ’’فاتح نمازگاہی‘‘ بن گئی۔(جہان دیدہ)۔۔۔بالآخر سلطان نے اپنی لاڈلی فوج ینی چری کا ایک بڑا دستہ اپنے ہمراہ لیا۔ جس کی صف اول میں آغا حسن عبدالرحمن اور ریاض بیگ جیسے سپاہی تھے۔ یونانی اور رومی اس وقت تک بالکل خستہ ہو چکے تھے۔ ان میں تازہ حملے کی تاب نہ تھی۔ سلطان نے تازہ مہم پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے ایک وزیر خاص کو اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں روانہ کیا اور عرض کی کہ یہ وقت خاص دعا اور روحانی امداد کا ہے۔ محصورین کی ہمت اور سخت مدافعت دیکھ کر حملہ آوروں کے دل چھوٹے جاتے تھے اور سلطان کو اندیشہ تھا کہ اگر آج قسطنطنیہ فتح نہ ہوا تو پھر کبھی نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ آج حملہ آور اپنی پوری ہمت اور طاقت صرف کر چکا تھا۔ سلطان کا فرستادہ جب اس مرد خود آگاہ کی چھولداری کے قریب پہنچا تو دربان نے اسے اندر جانے سے منع کر دیا۔ لیکن عثمانی وزیر نے دربان کو ڈانٹا اور کہا کہ وہ ضرور مرد سلطانی کی خدمت میں حاضر ہو کر سلطان کا پیغام پہنچائے گا۔
یہ کہہ کر سلطانی فرستادہ چھولداری میں داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ بزرگ سربسجود اور دعا میں مصروف ہیں۔ عثمانی وزیر کے داخل ہونے پر انہوں نے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے کہا’’جاؤ!۔۔۔قسطنطنیہ فتح ہو چکا ہے۔‘‘ (تاریخ اسلام)
عثمانی وزیر کو بزرگ کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ واپس بھاگا۔ لیکن چھولداریسے نکل کر اس نے دیکھا کہ فصیل شہر پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ دراصل جس وقت سلطان نیاپنے فرستادہ کو اپنے پیرو مرشد کی طرف روانہ کیا تھا وہ وقت بڑا نازک تھا۔ اور پھر ٹھیک اسی وقت فصیل شہر کا وہ حصہ جو سلطان کے سامنے تھا یکایک خود بخود گر پڑا اور اس کے گرنے سے خندق پر ہوگئی۔ شہر میں داخل ہونے کا راستہ صاف ہوگیا۔ ادھر فصیل کا یہ حصہ گرا ، ادھر عین اسی وقت بندرگاہ کی طرف سے بحری فوج نے ایک برج پر قبضہ کرکے سلطانی علم نصب کر دیا۔ اس علم کو بلند اور سامنے کی دیوار کو منہدم دیکھ کر سلطان کا ہمرکابدستہ جس کا سالار آغا حسن تھا۔ بلا تامل شہرپر چڑھ دوڑا۔ لیکن عیسائی ابھی بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھے۔ اور اسی دوران قسطنطنین کو ایک اور گہری چوٹ یہ آئی کہ اس کا بہادر سالار جان جسٹینانی جو گویا مدافعت کا روح تھا ایک گہرا زخم کھا کر کچھ ایسا خائف ہوا کہ جنگ سے بالکل ہی کنارہ کش ہوگیا۔ ایسے نازک وقت میں جب سلطان خود اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کر رہا تھا جسٹینانی اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اور یوں گویا اس نے شہر دشمن کے سپرد کر دیا۔ قسطنین نے جسٹینانی کو روکنے کے لیے شدید اصرار کیا لیکن وہ اسلامی تلواروں سے ڈر چکا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک نہ سنی اور فوراً بندرگاہ کی جانب چلا گیا۔ اس کے ہٹتے ہی عیسائیوں میں کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ چنانچہ قسطنطین نے خود موقع پر پہنچ کر کمان اپنے ہاتھ میں لی۔ مگر ینی چری کا حملہ اتنا سکت تھا کہ عیسائیوں کی جانبازی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ عیسائیوں نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر وہ دست بدست لڑائی میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے اہل نہ تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)