عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 113
ینی چری کا سردار آغا حسن اپنے تیس بہترین ساتھیوں کے ہمراہ فصیل شہر پر کامیابی کیساتھ چڑھ گیا۔۔۔قسطنطنین اور اس کا محافظ دستہ آغا حسن کو روکنے کے لیے خود آگے بڑھے۔ تیس مسلمان سپاہیوں کے مقابلے میں کئی سو عیسائی نکل آئے۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔۔۔لیکن آغا حسن نتیجے سے بے پرواہ قسطنطین کے شاہی دستے پر اپنی تلوار کی بجلیاں گراتا ہوا آگے سے آغے بڑھنے لگا۔ آغا حسن کے جسم پر ہزاروں زخم آئے لیکن اس کا ہاتھ کسی کودکار مشین کی طرح بدستور چلتا رہا۔ یہاں تک کہ آغا حسن زخموں سے چور چور ہو کر گرا اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ینی چری کے تیس سپاہیوں میں سے اٹھارہ شہید ہو کر گر گئے۔ تاہم باقی کامیاب رہے اور ان کے عقب میں مزید ترکی دستوں کی کمک پہنچ گئی۔ اب ہر طرف سے حملہ آور شہر میں داخل ہونے لگے اور دروازے توڑ توڑ کر اندر گھسنے لگے۔ شہر کے چاروں طرف فصیل کے ساتھ اور فصیل کے اندرونی جانب عیسائیوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ اب شہر کی سب سے بڑی فصیل پر سرخ ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔
قسطنطنین جو اب تک بے جگری کے ساتھ لڑ رہا تھا اپنے انتہائی بہادر ساتھیوں کے حوصلہ چھوڑ دینے پر امید کا دامن چھوڑ بیٹھا اور اس نے اپنے چاروں طرف دیکھتے ہوئے باآواز بلند پکارا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 112پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیا کوئی عیسائی نہیں ہے جو مجھے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دے؟۔۔۔کیاکوئی عیسائی نہیں ہے جو مجھے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دے؟‘‘
لیکن جب روم کے آخری قیصر کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے قیاصرۂ روم کی خصوصی پوشاک اتار کر پھینک دی اور عثمانی فوج کے بڑھتے سیلاب میں گھس کر ایک سپاہی کی طرح بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا۔۔۔اور اس طرح اس کی موت پر گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت رومہ کا خاتمہ ہوگیا۔ جس میں ابتداء بھی قسطنطین سے ہوئی تھی اور انتہا بھی قسطنطنین پر ہوئی۔ اور اس کے بعد۔۔۔’’قیصر‘‘ کا لقب ایک تاریخی داستان بن کر رہ گیا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ ’’اذا ھلک قیصرا، فلا قیصر بعدہ‘‘۔۔۔
چندلمحوں کے اندر اندر قسطنطنیہ، فاتحین کے پے درپے دستوں سے بھر گیا۔ پہلے تو انہوں نے فتح کے ابتدائی جوش میں بچے کھچے سپاہیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب یہ جوش ٹھنڈا ہوا اور اہل قسطنطنیہ کی طرف سے کوئی مزاحمت باقی نہ رہی تو عثمانیوں نے اپنی تلواریں نیاموں میں کر لیں۔ سلطان محمد خان اپنے بہادر سالاروں اور معتمد ساتھیوں کے ہمراہ گھوڑے پر سوار ہو کر اسی منہدم فصیل کے راستے شہر میں داخل ہوا اور شہر کے بچیوں و بیچ سے گزرتا ہوا ’’آیا صوفیاء‘‘ کے چرچ کے پاس پہنچا۔ یہاں اس کے ستون کے پاس جس کے ساتھ ترکوں کی شکست کی پیشنگوئی منسوب تھی، ہزاروں عیسائی پناہ گزین تھے۔ دراصل عیسائیوں کے اعتقاد کی بنیاد۔۔۔ایک جوشیلے یا اختراع پرداز پادری کے الہام پر تھی جس نے یہ بشارت دی تھی کہ ایک روز ترک قوم کے لوگ قسطنطنیہ میں داخل ہو جائیں گے۔ اور رومیوں کا تعاقب کرتے کرتے اس ستون تک پہنچ جائیں گے جو شاہ قسطنطنین کے نام سے منسوب ہے لیکن بس یہی ان کے مصائب کا نقطہ آغاز ہوگا کیونکہ اس موقع پرایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا اور اپنے آسمانی کے ذریعے قسطنطنیہ کی سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ فرشتہ اس شخص سے کہے گا۔۔۔یہ تلوار پکڑو اور اس سے خداوند کا انتقام لو۔۔۔بس! اس حیات آفرین جملے کو سنتے ہی ترک فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے اور رومی فتح یاب ہو کر ترکوں کو مغلوب کر دیں گے ۔ وہ ترکوں کو مغرب اور اناطولیہ سے ایران کی سرحدوں تک بھگا دیں گے۔‘‘(انگریز مورخ ایڈورڈ گبن)
سلطان کا گھوڑا جب اس ستون کے پاس پہنچا تو قسطنطنیہ کے ہزاروں عیسائی سراٹھا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ انہیں توقع تھی کہ آسمانی فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے ابھی نازل ہوگا اور ترک سلطان اپنے ساتھیوں سمیت بھاگ اٹھے گا۔ لیکن سلطان محمد خان اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر ’’سینٹ صوفیاء‘‘ کے دروازے تک پہنچ گیا۔ نہ کوئی فرشتہ آسمان سے اترا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ یہاں تک کہ اس کلیسا کے بارے میں یہ طلسماتی یا اعتقادی توہمات سلطان کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے خاک میں مل گئے۔
آج وہ سلطان محمد خان نہیں۔۔۔بلکہ ’’سلطان محمد فاتح‘‘ بن چکا تھا۔
قاسم بن ہشام بھی سلطان محمد فاتح کے ہمراہ ’’آیا صوفیاء‘‘ کے دروازے پر اپنے گھوڑے پر سے اترا ۔ وہ یہاں کئی مرتبہ آچکا تھا۔ سلطان ابھی ’’آیا صوفیاء‘‘ کے دروازے پر ہی موجود تھا کہ قاسم بے صبری کے ساتھ آیا صوفیاء میں داخل ہوگیا۔ چرچ کے ہال میں اس کے جانے پہچانے پادری اور راہبائیں جمع تھیں۔ ان سب نے قاسم کو چونک کر دیکھا اور اس کی فاتحانہ واپسی پر حیران رہ گئے لیکن قاسم کو تو ’’سونیا‘‘ کے پاس پہنچنا تھا۔ اسے سونیا ہال میں کہیں نظر نہ آئی تو وہ تیزی سے بالائی منزل کی طرف بھاگا۔ وہ دو زینے ایک ساتھ پھلانگتا ہوا راہداری میں پہینچا اور تیزی سے دوڑتے ہوئے سونیا کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔
قاسم نے جونہی سونیا کے کمرے کے دروازہ دھکیلا، اس کے منہ سے بے ساختہ اوہو کی درد بھری آواز نکل گئی۔۔۔سونیا کمرے کے وسط میں فرش پر چاروں شانے چت پڑی تھی۔ اس کے پیٹ میں ایک لمبی تلوار پیوست تھی جو صلیب کی شکل پر بنی ہوئی تھی۔ سونیا کا خون فرش سے بہہ بہہ کر دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ سونیا خود لہو میں لت پت آنکھیں دروازے پر ٹکائے ہمیشہ ہمیشہ کیلیے امر ہو چکی تھی۔۔۔!
قاسم دوڑ کر سونیا کے پاس پہنچا۔ لیکن وہ مر چکی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ وعدے کے مطابق اب بھی قاسم کی منتظر تھی۔ قاسم نے سونیا کی نبضیں ٹٹول کر دیکھیں اور پھر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بآواز بلند انا للہ و انا الیہ راجعون کہا۔ قاسم نے حالات کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا کہ سونیا نے خودکشی نہ کی تھی بلکہ اسے قتل کیا گیا تھا۔ قاسم کا ذہن فوراً شاگال کی طرف چلا گیا۔ یہ یقیناًاسی مکروہ انسان کا مذموم فعل تھا۔ قاسم کی آنکھوں میں شاگال کا تصور کرکے خون اترنے لگا۔
سلطان محمد فاتح نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ ظہر کی نماز آیا صوفیاء میں پڑھے گا۔ چنانچہ فوری طور پر ’’آیا صوفیاء‘‘ کے ہال سے عبادت کی نشستیں ہٹا دی گئیں اور آیا صوفیاء کے ہال میں سلطان محمد فاتح کے حکم پر اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں۔ سلطان اور اس کے ساتھی خدائے واحد کی تسبیح و تقدیس کے لئے سر بسجود ہوئے تو آیا صوفیاء کے ہال میں ایک طرف کھڑے عیسائی پادریوں کی آہیں اور سسکیاں نکل گئیں۔ نماز سے فارغ ہو کر سلطان محمد فاتح نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ جا کر قسطنطنین کی لاش کو تلاش کریں۔۔۔قسطنطنین’’سینٹ رومانس‘‘ کے دروازے کے نزدیک ہی لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ سب سیز یادہ کشت و خون سینٹ رومانس کے دروازے پر ہوا تھا جہاں اس وقت عیسائیوں کی لاشوں کے انبار پڑے تھے۔ اس جگہ بہت سی لاشوں کے درمیان قسطنطنین کی لاش ملی۔ جس کے جسم پر صرف دو زخم آئے تھے۔ سلطان کے سپاہی قسطنطین کا سر کاٹ کر سلطان محمد فاتح کی خدمت میں لے آئے۔ اور اس طرح فتح قسطنطنیہ تکمیل کو پہنچ گئی۔۔۔!
اگلے روز سلطان قیاصرہ رقم کے شاہی محل میں پہنچا اس نے دیکھا کہ اس وسیع و عریض محل میں ہو کا عالم تھا۔ سلطان نے اس ویرانی اور خاموشی کو دیکھا تو بے اختیار اس کی زبان پر یہ شعر آگیا۔
پردہ داری می کند بر قصر کسریٰ عنکبوت
چغد نوبت فی زند برگنبد افراسیاب
(دولت عثمانیہ)
۔۔
اس معرکے میں چالیس ہزار عیسائی مسلمانوں کے ہاتھوں مقتول ہوئے اور ساٹھ ہزار جنگجو عیسائیوں کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا۔ بہت تھوڑے ایسے تھے جو فتح قسطنطنیہ کے بعد کسی نہ کسی طرح خشکی یا سمندر یک راستے بچ کر نکل گئے۔ قیصر کے خاندان کا کوئی آدمی گرفتار نہ وہ سکا اور سب بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اکثر ’’اٹلی‘‘ میں اور بہت تھوڑے بعض دیگر مقامات پر جا کر پناہ گین ہوئے۔ قیصر قسطنطین کا ایک پوتا چند روز کے بعد مسلمان ہوگیا اور قسطنطنیہ میں آکر رہنے لگا۔ بالآخر جلد اس خاندان کا نام و نشان مٹ گیا۔
شاہی محل سے فارغ ہو کر سلطان نے قسطنطنیہ کے مشہور گھڑ دوڑ کے میدان میں ’’ہپوڈ روم‘‘ میں اپنے لشکر کو جمع کیا ور نماز شکرانہ ادا کی۔ ’’ہپوڈ روم‘‘ صرف گھڑ دور کا میدان ہی نہ تھا بلکہ یہاں پر نئے بادشاہوں کی تاجپوشی کا اعلان ہوتا تھا۔ یہیں پر فتح مند جرنیل فتح کا جشن مناتے۔ یہیں پر مجرموں کو پھانسی دی جاتی اور منحرف فرقوں کو زندہ جلایا جاتا۔ اسی میدان میں وحشی جانوروں کی نمائش اور جسمانی کرتب کے تماشے منعقد ہوتے۔ تاریخ میں کئی بار حکومت کے خلاف بغاوتیں اسی میدان سے شروع ہوئیں اور یہ میدان نہ جانے کتنی مرتبہ انسانوں کے خون سے لالہ زار ہوا تھا۔ آج سلطان محمد خان فاتح اسی میدان میں دربار عام لگا کر قسطنطنیہ کو اپنا پایۂ تخت قرار دینے والا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)