عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 114
’’ہپوڈروم‘‘ میں تین ستون نصب تھے۔ ایک ستون چوتھی صدی قبل مسیح میں، دوسرا پانچویں صدی عیسوی میں اور تیسرا دسویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ تین مختلف بازنطینی بادشاہوں نے اپنی یادگار کے طور پر تعمیر کئے تھے۔ سلطان محمد فاتح سب سے چھوٹے ستون کے پہلو میں اپنی مسند لگا کر بیٹھا تو اس کی نظر ہپوڈ روم میدان کے ستون پر پڑی۔ اس چھوٹے ستون پر پتھر کے تراشے ہوئے تین اژدھے لپٹے ہوئے تھے۔ سلطان اژدھوں کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی بھاری جنگی تبر سے ان اژدھوں کے سر اڑا دیئے۔
’’ہپوڈ روم‘‘ میں ابھی سلطان کا دربار جاری تھا اور سلطان محمد فاتح اپنے نئے احکامات کا اعلان کر رہا تھا۔ سلطانی افواج اور مسلمانوں کے علاوہ اس وسیع میدان میں ہزاروں یونانی اور عیسائی باشندے بھی موجود تھے۔ اہل قسطنطنیہ آج اپنے نئے بادشاہ کو دیکھنے آئے تھے۔ عثمانی فوج نے کل ہی شہر میں امن و امان قائم کر دیا تھا۔ سلطان ے شہر بھرمیں اعلان کروا دیئے کہ قسطنطنیہ کے ہر شہری کا جان و مال محفوظ رہے گا۔ یہی وجہ تھی کہ آج مفتوح قوم کے شہری ڈرتے ڈرتے یہاں چلے آئے تھے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 113پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم بن ہشام دربار سلطانی میں شرکت کے لیے دیر سے آیا تھا۔ وہ دن بھر بندرگاہ پر گھومتا رہا تھا۔ اسے شاگال کی تلاش میں نکلنے کے لیے ایک تیز رفتار بحری جہاز اور چند سپاہیوں کی ضرورت تھی۔ لیکن دوپہر تک قاسم کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ دراصل وہ فی الحال قسطنطنیہ سے نکل بھی نہیں سکتا تھا۔ سلطان محمد فاتح کسی بھی وقت قاسم کو طلب کر سکتا تھا۔ البتہ اب قاسم نے سوچ لیا تھا کہ وہ مارسی کی بازیابی کے لئے خود سلطان سے بات کرے گا۔ اور اس مشن پر سلطان کی مرضی سے روانہ ہوگا۔ قاسم کے اہل خانہ بھی قسطنطنیہ میں ہی مقیم تھے۔ اہلیان قسطنطنیہ میں سے جو لوگ شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے ان کے مکانات خالی پڑے تھے۔ اسی طرح کے مکانوں میں سلطان نے لشکر کی خواتین اور بعض زخمیوں کو منتقل کر دیا۔ حمیرا بھی وہیں موجود تھی۔ قاسم جلد سے جلد مارسی کی تلاش میں نکلنا چاہتا تھا۔ قاسم ’’ہپوڈروم‘‘ کے میدان میں داخل ہوا۔۔۔اور سیدھا عمائدین سلطنت کی قطار کی جانب بڑھے لگا۔ ابھی وہ بھیڑ کو چیرتا ہوا چند قدم ہی اٹھا پایا تھا کہ ایک دم ٹھٹھک کر رک گیا۔
اسے ایک جانی پہچانی شکل دکھائی دی تھی۔ یہ’’مقرون‘‘ تھا۔ وہی یونانی سالار جس کے ساتھ قاسم کی پہلی ملاقات مچھیروں کی بستی میں ہوئی تھی۔ یہی مقرون ہی تو تھا جس نے معصوم مچھیرن روزی کو اغواء کر لیا تھا اور قاسم نے روزی کی بازیابی کے لیے یونانیوں پر دھاوا بول دیا تھا۔ قاسم نے مقرون کو دیکھا تو اسے حیرت ہوئی۔ مقرون سادہ لباس میں تھا اور اس نے عام دیہاتیوں کی طرح سر کے گرد کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ قاسم نہ جانے کیوں مقرون کو دیکھ کر رک گیا۔ اسے مقرن کے چہرے پر تجسس اور سنسنی نظر آئی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ مقرون سلطانی جلسے سے بے پرواہ قسطنطنیہ کے شہریوں میں گھوم رہا تھا۔ وہ ایک ایک شخص کا چہرہ غور سے دیکھتا پھر رہا تھا۔ قاسم کی چھٹی حس بیدار ہوگئی اور اس کے اندر کا جاسوس چوکنا ہوگیا۔ وہ سلطانی دربار کی طرف بڑھنے کی بجائے مقرون کا تعاقب کرنے لگا۔
مقرون دیر تک بھیڑ میں کسی شخص کو تلاش کرتا رہا اس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہے اور پھر مقرون جب اپنے مطلوبہ شخص کو تلاش کرنے میں ناکام رہا تو بھیڑ سے نکلنے لگا۔ قاسم اس کے پیچھے تھا۔ مقرون پیدل چل رہا تھا ور قاسم دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ مقرون پیدل ہی چلتا رہے۔ کیونکہ گر مقرون گھوڑے پر سوار ہوتا تو قاسم کے لے اس کا تعاقب کرنا آسان نہ تھا۔ قاسم کی دعا قبول ہوئی اور مقرون پیدل ہی چلتا رہا۔ مقرون مختلف گلیوں اور بازاروں سے گزرتا ہوا شہر کی مشرقی سمت میں جانے لگا۔ اس طرف بہت پرانی فصیل تھی۔ کئی فٹ چوڑی اور پانچ میل سے زیادہ لمبی یہ فصیل کھلے سمندر کی جانب تھا جس سمت میں آبنائے باسفورس کا چھوڑا پاٹ تھا۔ شہر کی آباد اس جانب زیادہ گنجان نہ تھی۔ کیونکہ فصیل میں کہیں کوئی بڑا دروازہ نہ تھا۔ یہ گویا قسطنطینہ کی عقبی سمت تھی۔ مقرون ایک طویل سفر پیدل طے کرکے شمال مشرقی کھنڈرات کی جانب بڑھنے لگا۔ قاسم کی رگ تجسس پھڑکنے لگی۔ یقیناً۔۔۔کوئی راز کی بات تھی۔۔۔یقیناًکوئی خفیہ معاملہ تھا۔
مقرون ویران کھنڈرات تک جانے کے لیے گھنے درختوں اور آڑھے ترچھے راستوں پر چل رہا تھا۔ قاسم نے اپنے اور مقرون کے درمیان اتنا فاصلہ رہنے دیا تھا کہ مقرون کو تعاقب کا پتہ نہ چل سکے۔ بالآخر قاسم کو ایک شکستہ حال عمارت نظر آئی۔ یہ عمارت کسی قدیم چرچ کی تھی۔ عمارت کے دروازے پر لکڑی کی صلیب نصب تھی۔ مقرون اسی کھنڈر نما عمارت میں داخل ہوگیا۔ قاسم نے مقرون کو اس تاریک کھنڈر میں داخل ہوتے دیکھا تو اپنے قدموں کی رفتار کو تیز کر دیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر مقرون اس ویرانے میں کس مقصد کے تحت آیا ہے اور چرچ کی عمارت میں کیا کرنے کے لیے گھسا ہے؟ قاسم چیتے کی طرح ہوشیاری کے ساتھ چلتا ہوا چرچ کی عمارت کے نزدیک جا پہنچا۔ چرچ کا بیرونی برآمدہ بے حد شکستہ تھا۔ برآمدے کے سال کوردہ ستون اندر یک طرف جھکے ہوئے تھے۔
قسطنطنیہ کا یہ علاقہ اونچی نیچے چٹانوں کے ایک سلسلے پر مشتمل تھا۔ کھنڈر نما چرچ انہی چٹانوں میں واقع تھا۔ قاسم چرچ کی عمارت میں سامنے سے داخل ہونے کی بجائے پہلو کی طرف سے گھوم کر چرچ کے عقب میں نکل آیا۔ چرچ کی عقبی دیوارمیں بھی دروازہ تھا۔ لیکن لکڑی کا یہ بھاری دروازہ بند تھا۔ قاسم دبے قدموں دروازے کے قریب آیا اور سال خورد دروازے کی جھریوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ قاسم کو چرچ کے اندر سوکھے صرے پتوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔۔۔ارے! یہ مقرون کہاں چلا گیا؟ قاسم نے سوچا۔ اور پھر قاسم تیزی سے واپس دوڑا اور وہ سیدھے راستے سے چرچ میں داخل ہونے جا رہا تھا۔ قاسم نے اپنی تلوار نکال لی تھی اور وہ ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔
قاسم نہایت احتیاط کے ساتھ چرچ میں داخل ہوا۔ یہاں واقعی کوئی نہ تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا چرچ تھا۔ قاسم کڑکڑاتے ہوئے پتوں سے بچتا بچاتا اس اکلوتے دروازے کی طرف بڑھنے لگا جو چرچ کی داہنی دیوارمیں تھا۔ اس طرح سے چرچ کی عمارت ایک اونچی چٹان کے ساتھ منسلک تھی۔۔۔بالفاظ دیگر یہ دروازہ چرچ کے اندر سے چٹان میں کھلتا تھا۔ دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔ قاسم احتیاط سے دروازے میں داخل ہوا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہاں ایک چھوٹا سا حجرہ تھا اور وہ بھی خالی تھا۔ تو پھر مقرون کہاں چلا گیا تھا؟ اسے زمین نگل گئی تھی یا آسمان نے اٹھا لیا تھا۔ یہ چھوٹا سا محرابی طرز کا حجرہ دراصل بیرونی چٹان کو تراش کر بنایاگیا تھا جسے کسی پادری کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔ لیکن اس وقت یہ کمرہ بھی خالی دیکھ کر قاسم کی چھٹی حس کسی بڑے خطرے کا اعلان کرنے لگی۔ قاسم نے مقرون کو خود اپنی آنکھوں سے چرچ میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اور اب مقرون غائب تھا۔ معاً قاسم کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ممکن ہے چرچ کے اس حجرے سے کوئی خفیہ راستہ کسی اور جانب نکلتا ہو۔ اسی خیال کے تحت قاسم حجرے کی دیواروں کو غور سے دیکھنے لگا۔
حجرے کے فرش پر ایک کونے میں گھاس پھونس کا ایک چھوٹا سا ڈھیرپڑا تھا۔ قاسم فوراً آگے بڑھا اور کونے میں پڑا گھاس پھونس پٹانا شروع کر دیا۔۔۔یہاں تو واقعی راستہ تھا اوپر کی سطح پر لکڑی کا ایک بڑا سا تختہ رکھا تھا۔ قاسم نے آواز پیدا کئے بغیر لکڑی کا پٹھا اوپر اٹھا دیا۔ نیچے سرنگ تھی۔ لیکن سرنگ کے فرش تک پہنچنے کے لیے قاسم کو اٹھ فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگانا تھی۔ سرنگ میں اس قدر تاریکی تھی کہ قاسم بغیر کسی احتیاط کے اترتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اسے کیا معلوم مقرون سرنگ کے اندر کسی جگہ چھپا ہے۔ لیکن قاسم یہ خطرہ مول لئے بغیر رہ بھی تو نہ سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے چھلانگ لگانے کی بجائے لٹ کر نیچے سرنگ میں اترنا مناسب خیال کیا۔ اور پھر قاسم نے فرش کے کناروں پر ہاتھ رکھ کر خود کو نیچے لٹکا لیا اگلے لمحے وہ تاریک سرنگ میں تھا۔ پہلے تو قاسم کو کچھ نہ دکھائی دیا لیکن پھر تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہونے لگیں اور اسے اپنے سامنے ایک طویل سرنگ دکھائی دی۔ اس سرنگ کا رخ مشرق کی جانب تھا اور یہ تقریبا آدھے کوس سے زیادہ لمبی تھی۔ قاسم نے اندازہ لگایا کہ یہ سرنگ یقیناًشہر کی مشرقی فیصل کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ تو گویا یہ سرنگ قسطنطنہ سے باہر باسفورس کے ساحل پر نکلتی تھی کیونکہ پون کوس دور قاسم کو تیز روشنی کا ایک چھوٹا سا ہالہ دکھائی دیا۔ یہ سرنگ کا بیرونی دہانہ تھا۔ اب قاسم سرنگ میں ہر چیز کو دیکھ سکتا تھا۔ قاسم کو مقرون یہاں بھی دکھائی نہ دیا۔ کچھ سوچ کر قاسم نے سرنگ سے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ مقرون کو باسفورس کے ساحل سے کسی کشتی میں سوار ہونے کا موقع نہ دینا چاہتا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ مقرون کو گرفتار کرکے اس سے پوچھ گچھ کرے گا۔
تھوڑی دیر بعد قاسم سرنگ سے باہر تھا۔ یہ قسطنطنیہ کی عقبی سمت تھی۔ قاسم سرنگ کے دہانے سے جونہی باہر آیا۔ اس کی نظریں باسفورس کے پانی میں لنگر انداز ایک چھوٹے سے جہاز پر پڑیں۔ جہاز کے بادبان کھلے ہوئے تھے اور وہ ساحل سے پچاس گز دور گہرے پانی میں لنگر انداز تھا۔ سامنے کھڑے جہاز کے عرشے پر کوئی پرچم نصب نہ تھا جس سے قاسم اندازہ لگاتا کہ یہ جہاز کس کی ملکیت ہے لیکن جہاز کا رنگ دیکھ کر قاسم کا ماتھا ٹھنکا تمام جہاز پر سیاہ تیل مل کر جہاز کو کالا کر دیاگیاتھا۔ غالباً رات کی تاریکی میں جہاز کو چھپانے کی نیت سے ایسا کیا گیا تھا۔ قاسم کے دماغ میں ڈیوڈ کے الفاظ گھومنے لگے۔ ڈیوڈ نے کہا تھا کہ شاگال کا جہاز کالا ہے۔ ایک دم قاسم کی تمام حسین بیدار ہوگئیں۔ شروع سے اب تک وہ جس جہاز کو تلاش کرتا رہا تھا وہ پراسرار جہاز خودبخود قاسم کے سامنے آگیا تھا۔ گویا قدرت قاسم پر مہربان تھی۔ نہ جانے کیوں اس پراسرار جہاز کو دیکھ کر قاسم کا دماغ غصے سے سنسنانے لگا۔ اسے غصہ کیوں نہ آتا؟ مکروہ شاگال کسی دیو کیطرح اس کی مارسی کو اٹھ اکر لے گیا تھا۔ قاسم کو مقرون اب مکمل طور پر بھول چکا تھا۔ وہ تو صرف اور صرف شاگال کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ لیکن یکایک قاسم کو اپنے بائیں جانب ویران چٹانوں نے متوجہ کر لیا۔ قاسم نے کوئی آواز سنی تھی۔ بالکل ویسی آواز جیسی پانی میں کسی چیز کے گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔یہ چھپاکے کی آواز تھی۔ قاسم ایک دم اپنی بائیں جانب دوڑ برہنہ شمشیر قاسم کے ہاتھ میں تھی۔وہ تیزی سے دوڑتا ہوا چٹان کے پاس پہنچا اور چٹان کی ایک طرف سے گھوم کر اس چھوتے سے کٹاؤ کے پاس آگیا جس میں سے چھپاکے کی آواز پیدا ہوئی تھی۔
مقرون قاسم کے سامنے تھا۔۔۔چٹانوں کی اوٹ میں موجود ایک چھوٹے سے کٹاؤ کے اندر مقرون کی کشتی کھڑی تھی اور جس وقت قاسم وہاں پہنچا مقرون کشتی میں سوار ہو چکا تھا یقیناًمقرون اپنی کشتی لئے شاگال کی طرف جانے والا تھاا ور اگر یہ کشتی یہاں سے ہٹ جاتی تو پھر قاسم کے لیے شاگال کے جہاز تک پہنچنا ناممکن نہ رہتا۔ مقران ابھی تک قاسم کو نہ دیکھ پایا تھا۔ قاسم مقرون سے کوئی فٹ بلند چٹان پر کھڑا اسے جہاز کی جانب جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ قاسم نے ایک لمحے میں حتمی فیصلہ کیا اور پھر ذرا سی دیر کئے بغیر مقرون پر چھلانگ لگا دی۔ وہ فضا میں اچھلتا ہوا مقرون پر آرہا۔ کشتی نے زور سے ہچکولا لیا اور وہ دونوں کشتی سے گرتے گرتے بچے۔ چھلانگ لگاتے وقت قاسم کی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اور جونہی وہ مقرون پر آیا اس کے داہنے ہاتھ نے کام دکھایا اور تلوار کا دست مقرون کے سر کو پھاڑتا ہوا نکل گیا۔ لیکن مقرون ابھی تک زندہ تھا۔ چنانچہ قاسم نے اسے تلوار نکالنے کا موقع نہ دیا اور اپنی ہلالی شمشیر مقرون کے دل میں گھسیڑ دی۔ مقرون کی چیخ اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی اور وہ بری طرح تڑپنے لگا۔ آخری لمحات میں وہ قاسم کو پہچان چکا تھا اور مرنے سے پہلے اس کی آنکھیں حیرت کی شدت کے باعث بہت زیادہ پھیل چکی تھین۔۔۔مقرون مر گیا تو قاسم نے اپنی تلوار واپس کھینچ لی اور مقرون کو کشتی سے نیچے دھکا دے دیا۔ مقرون کی لاش چھپک کی آواز کے ساتھ پانی میں گری اور باسفورس کا نیلا پانی تیزی سے سرخ ہونے لگا۔
اب قاسم کی کشتی شاگال کے جہاز کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اور قاسم کا دل یہ سوچ سوچ کر دھڑک رہا تھا کہ اگر یہ کالا جہاز فی الواقع شاگال کا جہاز ہوا تو اسے اپنی مارسی یہیں مل سکتی تھی۔ سورج باسفورس پر پوری طرح چمک رہا تھا اور قاسم اپنی کشتی کو دو چپوؤں کی مدد سے کھیتے ہوئے کالے جہاز کی طرف بڑھا رہا تھا۔ جہاز پچاس گز کے فاصلے پر موجود تھا اور جہاز پر سے قاسم کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
اور پھر کچھ دیر بعد وہی ہوا جس کا خطرہ قاسم کو لاحق تھا۔ جہاز کے عرشے پر سے قاسم کو کسی نے دیکھ لیا۔ یہ مقرون کی طرح کا کوئی سپاہی ہی تھا جس نے قاسم کی کشتی کو جہاز کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا عرشے سے نیچے چلا گیا چند لمحے بعد قاسم نے پھر دیکھا کہ عرشے پر اس سپاہی کے ساتھ قسطنطنیہ کا سب سے پراسرار شخص شاگال کالے جہاز کے عرشے پر پہنچ چکا تھا۔(جاری ہے)