شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان

سید عارف نوناری
شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا۔ پہلے یہ تمام ممالک شنگھائی5کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔اب اس میں کچھ مبصرین ممالک بھی شامل ہیں.
پاکستان اس وقت بے شمار اقتصادی و معاشی اور سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے جس کے سبب حکمرانوں کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہیں۔ از بکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہو گیا ہے اس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ مشترکہ لیکن مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ نافذالعمل ہوناچاہیے۔ رکن ممالک نے باہمی معاملات میں مقامی کرنسیوں کا حصہ بڑھانے کے روڈمیپ کی منظوری دی اورگرین ہاؤس گیس اخراج میں کمی کیلئے ایک دوسرے کی مدد پر اتفاق کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نےتوانائی کے شعبے کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر اتفاق کیا اور گلوبل انرجی کی نگرانی کا شفاف نظام بنانے کامطالبہ کیا۔ تجارت اورسرمایہ کاری محدود کرنے کیلئے موسمیاتی ایجنڈے کا استعمال ناقابل قبول قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی کیلئے زبردستی کے اقدامات تعاون کونقصان پہنچاتے اور موسمیاتی چینلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کو کمزورکرتے ہیں۔اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے،اس تنظیم کے 8 رکن ممالک گرین ہاؤس گیس اخراج میں کمی اور ترقی میں توازن کی وکالت کرتے ہیں، پیرس معاہدے پر مکمل اورمؤثرعملدرآمدکیلئے کام کرنے پر تیار ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور تجاویز دیں ،وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایس سی او ممالک کو مل کر کاوشیں کرنا ہوں گی افغانستان میں امن ہوگا تو خطہ خوشحال ہوگا، نظرانداز کیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ وزیراعظم نےپاکستان کی سیلابی صورت حال سے بھی آگاہ کیا کہ کسی بھی ملک میں سیلاب سے اتنی تباہی نہیں آئی جتنی پاکستان میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں آئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی قیمت پاکستان نے سیلاب سے تباہ کاریوں کی صورت میں اداکی ہے، کیا یہ آفت اور تباہی پاکستان کیلئے آخری ہے یا دیگر ممالک کو بھی ایسی صورتحال کا مستقبل میں سامنا کرنا ہوگا۔پاکستان میں سیلاب اور بارش کا پانی جگہ جگہ موجود ہے جس کے باعث ملیریا، ڈینگی اور دیگر بیماریاں جنم لے رہی ہیں، سیلاب سے ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور ہزاروں زخمی و متعدد لاپتہ ہیں، مویشی، فصلیں، گھر، بستیاں اور شہر متاثر ہوئے ، سیلاب متاثرین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے،دنیا کو پاکستان کی مدد کیلئے آگے آنا ہے۔بعض ممالک نے سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے، دنیا بھر کے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہیں ۔ علاقائی مسائل کے حل اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایس سی او کے تمام ممالک کومل کر کام کرنا ہے، خطے کا امن افغانستان میں امن سے جڑا ہے، خطے میں امن و امان کیلئے تمام رکن ممالک کو کام کرنے کی مزید ضرورت ہے، خوشحال،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ افغانستان خطے کے تمام ممالک کیلئے اہم ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے، افغانستان کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی، افغان حکومت عوام اوراقلیتوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے، افغانستان میں خواتین کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس علاقائی مسائل کے حل کیلئے بہترین فارم ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی فراخدلانہ اور بروقت مدد پر شکریہ ادا کیا۔شہباز شریف نے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر سی پیک کے تبدیلی کے اثرات کو سراہا اور سی پیک کی ترقی کیلئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایم ایل ون ریلوے منصوبے کے فریم ورک معاہدے کے پروٹوکول پر دستخط کا خیرمقدم کیا۔
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی، جس میں روس سے پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو گیس کی فراہمی کے منصوبے پر کام کرنے پر ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اتفاق کیا گیا۔ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ روس، قزاقستان اور ازبکستان میں کسی حد تک گیس پائپ لائن کے لیے بنیادی ڈھانچہ پہلے سے موجود ہے۔ اس سلسلے میں دوطرفہ تجارت کے فروغ، گیس کی فراہمی سمیت لارج سکیل منصوبوں کے امکانات اور عملدرآمد پر اتفاق رائے کیا گیا۔ترک صدر نے کہا کہ ہم جنوب مشرقی ایشیاء اور مجموعی طور پر ایشیا ءمیں پاکستان کو اپنا ترجیحی شراکت دار تصور کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان نہایت مثبت انداز میں تعلقات فروغ پا رہے ہیں جس پر ہمیں بے حد خوشی ہے۔
واضح رہے کہ دونوں رہنماؤں کے مابین ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم (ایس-سی-او) کے رکن ممالک کے ریاستی سربراہی کونسل کے اجلاس کے موقع پر ہوئی۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف سے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے بھی ملاقات کی، ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شعبے میں تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا.
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔