وزیر اعظم پاکستان کو جلداز جلد عمران خان کو نکالنا ہوگا

وزیر اعظم پاکستان کو جلداز جلد عمران خان کو نکالنا ہوگا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بابا جی کی باتیں حکمت سے بھرپورہوتی ہیں۔ غور وفکر سے کی گئی بات دل پر اثر رکھتی ہے۔اکثر ان کی خدمت میں حاضری دے کر کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔کپتان کی حکومت بننے کے بعد باباجی سے ملنے گیا تو موقعہ ملتے ہی ان سے پوچھا کہ ’’ عمران خان کی حکومت کے بارے میں کچھ فرمائیں،کیا حکومت کامیاب رہے گی، کامیابی کے لئے ایک لمبا اور مشکل سفر ہے ،کیا کپتا ن اپنے وعدے پورے کر سکے گا،کیا کپتان کی عوام کی نظروں میں کریڈیبلٹی قائم رہے گی یا، جن مخالف قوتوں سے اس کا مقابلہ ہے کیا وہ اسے چلنے دیں گی‘‘۔۔۔میرے دماغ میں جتنے بھی سوالات تھے میں نے ایک سانس میں ہی پوچھ لئے۔

بابا جی نے میرا لمبا سوال سن کر بڑے سکون سے کہا: ’’وزیراعظم پاکستان کو جلد از جلد عمران خان کو نکال باہر کرنا ہوگا۔وزیراعظم پاکستان کو عمران احمد خان نیازی کی ذات کو بھولنا ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان نے اگر اپنی حکومت میں عمران احمد نیازی کی ذات کو مٹا دیا تو پھر وہ ہر دل کی دھڑکن اور آنکھ کا تارا بن جائے گا ۔انسان جب کسی اونچے عہدے پر پہنچ کر اپنی ذات کو مٹا دیتا ہے اور میرٹ پر ہر فیصلہ کرتا ہے تو پھر اس دن اس کی اپنی ذات کی بجائے اس عہدے سے اس کی پہچان شروع ہو جاتی ہے اور وہ ایک نیا کردار بن کر دنیا کے سامنے ابھرتا ہے۔اس دن وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں اور تاریخ کی کتابیں سنہری حروف سے اس کا کردار لکھنا شروع کر دیتی ہیں جو قیامت تک مہکتا رہتا ہے۔جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ لمبا اور مشکل سفر ہے تو یاد رکھیں طویل فاصلہ اور راستے کی مشکلات دیکھنا آنکھ کی مجبوری ہے ،کامیاب لوگ دل کی نظر سے دیکھتے ہیں ،دل صرف اپنے اندر حوصلہ دیکھتا ہے اور بلند حوصلے ہمیشہ فاصلوں اور مشکلوں کو شکست دے دیتے ہیں۔


عمران خان کا مقابلہ کسی بھی اندرونی و بیرونی قوت سے نہیں نہ کسی سیاسی حریف سے، انہیں وہ عوام کی نظروں میں کرپٹ اور فرسودہ نظام کا محافظ قرار دے چکا۔وزیر اعظم پاکستان کا مقابلہ خود عمران خان کے ساتھ ہے۔اس عمران خان کے ساتھ جو حکمران کو خلفائے راشدین کا پیروکار دیکھنا چاہتا تھا، جس کا دعویٰ تھا کہ حکمران کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا وہ کاروبار یا کاروباری لوگوں کے ساتھ ذاتی دوستیاں نہیں رکھ سکتا ۔عمران خان کے کسی بھی فائل ،معاہدے یا منصوبے پر کئے گئے دستخط وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ہونے چاہئیں اس میں عمران کی ذات کا ذرا بھی تاثر نہیں ملنا چاہئے۔اس کے ہر منصوبے ،معاہدے یا فیصلے میں کہیں دور دور تک اس کی ذات نظر نہیں آنی چاہئے۔اس کے کسی بھی عمل میں کہیں بھی اس کے رشتے دار،دوست یا تعلق داروں کو فائدہ پہنچتا نظر نہیں آنا چاہئے۔

اس کے ہر دستخط کے ساتھ بیس کروڑ پاکستانیوں کا مفاد جڑا نظر آنا چاہئے۔عمران خان کے ارد گر د کوئی زلفی بخاری،عون چودھری یا دوسرے غیر سیاسی کردار فوائد لیتے نظر نہیں آنے چاہئیں۔عمران خان کا ہر مشیر،وزیر اور ساتھی ایک پروفیشنل پاکستانی ہونا چاہئے جو اپنے اپنے شعبے کا نامور شخص ہو اور اس کی کریڈیبلٹٰی کا زمانہ معترف ہو۔پچھلے بائیس سال میں عمران خان نے عوام کے سامنے خود کو ہی پارسائی کا مجسمہ بنا کر پیش کیا ہے اور حریفوں کو بے ایمانی کے سرٹیفکیٹ سے نوازتا رہا ہے۔عمران خان نے ایک حکمران کواصول پسند،غیر جانبدار اور میرٹ پر کام کرنے والادیوتا بنا کر پیش کیا ہے ۔وہ کہتا رہا ہے کہ حکمران کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہونا چاہئے ۔اب اسے نوازشات، مہربانیوں اور تعلق داریوں کی مکمل طور پر حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔


عمران خان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ عمران خان نہیں وزیراعظم پاکستان ہے۔اب کسی جہانگیر ترین یا علیم خان کا دوست نہیں، بلکہ وہ بیس کروڑ لوگوں کا دوست ہے۔اب وہ کسی کا سیاسی مخالف ہے نہ کسی سے اس کی ذاتی رنجش، اب اسے نواز شریف اورآصف علی زرداری سے لے کر ایک عام شہری تک سب کو برابری کی سطح پر دیکھنا ہوگا۔ اسے کسی کے جہاز استعمال کرنے، سپانسر کرنے یا پروموٹ کرنے پر اسے فائدہ دینے کا سوچنا بھی قانونی و اخلاقی جرم ہے۔ اس پر حق عوام کا ہے اور اس نے اپنے ہر عمل سے عوام کو فائدہ پہنچانا ہے اور یہی اس کا اول و آخر فرض ہے۔عمران خان اب وزیراعظم پاکستان بن چکا۔ اسے اب اپنے عہدے اقتدار اور طاقت کو بدلہ لینے نہیں، بلکہ معاف کرنے کے لئے استعمال کرنا ہو گا۔

اسے اپنی ذات کی نفی کرنا ہوگی ۔اب اسے ہر عمل، جس میں اس کی ذات ملوث ہو وہاں اگر کسی سے بدلہ لینا ہے،نوازنا ہے یا حکومتی وسائل خرچ کرنے ہیں اس سے الگ رکھنا ہوگا۔ ایسی کسی بھی فیصلہ سازی یا منصوبہ بندی سے اپنی ذات کو مٹا کر وزیراعظم پاکستان بن کر آغاز کرنا ہو گا۔ انسان جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو دراصل اقتدار اس پر سوار ہوا ہوتا ہے۔ حکمران کا ایمان جہاں کمزور پڑتا ہے اقتدار کا بوجھ اسے کچل دیتا ہے۔مہلت کبھی انسان کو نہیں ملتی اچھی نیت کو ملتی ہے ، بری نیت بہت جلد برے انجام سے دوچار ہوتی ہے۔حکمران کا ہر عمل ایک اینٹ لگانے کے برابر ہوتا ہے ، جس سے وہ آنے والی نسلوں کے لئے اپنے کردار کی عمارت قائم کر کے جاتا ہے۔جس نے یہ اینٹ سیدھی رکھی اس کی عمارت ہمیشہ سلامت رہتی ہے جس نے انہیں ٹیڑھی میڑھی رکھااس کی عمارت ہلکے سے جھٹکے سے دھڑم سے گر کر کھنڈر بن جاتی ہے۔


عمران خان کو وزیراعظم پاکستان بن کر قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو اپنے اوپر خرچ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر خرچ کرنا اس پر حرام ہے ۔ کہیں سے کک بیک یا مالی فائدہ لیتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انسان حرام رزق نہیں کھاتا، بلکہ حرام رزق انسان کو کھا جاتا ہے۔ حکمران اگر رعایا کے لئے آسانیاں پیدا نہ کرے تو اس کے ارد گر د مشکلیں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہیں جو اس کا سکون برباد کر دیتی ہیں۔کپتان کو وزیر اعظم پاکستان بن کر عمران احمد نیازی کی ذات کو نکالنا ہو گا پھر وہ ایک کامیاب حکمران بن کر دلوں پر راج کرے گا۔اگر وہ عمران خان بن کر وزیراعظم کے عہدے کے تمام تقاضے بھول گیا تو پھر اگلے پانچ سال عمران خان کے عروج سے زوال کا سفر ہوگا، اگر اس نے عمران خان کی ذات کی نفی کی تو پھر عمران خان کی زندگی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں سب سے بڑی کامیابی کا اضافہ ہو جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -