انسدادِ پولیو مہم کامیاب بنائیں
ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم کا آغاز ہو گیا، سوموار کو شروع ہونے والی یہ مہم 15 ستمبر تک جاری رہے گی۔اِس دوران 115 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے تین کروڑ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے، اِس خصوصی مہم میں دو لاکھ 86 ہزار پولیو ورکر گھر گھر جا کر بچوں کو قطرے پلائیں گے۔ مہم کا افتتاح وزیراعظم شہباز شریف نے بچوں کو انسدادِ پولیو کے قطرے پلا کر کیا،اِس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان سے پولیو کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے شکرگزار ہیں، وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر پولیو کا مقابلہ کرے گی اور آنے والے ماہ و سال میں اِس کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں 16 برس بعد پولیو کیس رپورٹ ہوا،جو کہ کسی دھچکے سے کم نہ تھا، میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں برس مجموعی طور پر یہ 17واں کیس رپورٹ ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ ابھی تک ملک سے اِس موذی مرض کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ قومی ادارہ صحت نے بھی اسلام آباد کی یونین کونسل نمبر چار میں ایک بچے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی۔تشویشناک بات یہ ہے کہ اسلام آباد اور اِس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس موجود تھا۔ رواں سال ملک کے 13 اضلاع سے17پولیو کیس سامنے آنے کے علاوہ 64 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔ انسدادِ پولیو پروگرام نے ملک بھر کی 40 یونین کونسلوں کو وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتہائی حساس قرار دیا ہے جن میں پشاور کی 18، کراچی کی آٹھ، قلعہ عبداللہ کی پانچ، پشین کی تین اور کوئٹہ کی چھ یونین کونسلیں شامل ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کی کوششوں کے دوران اب تک قریباً 70 خواتین سمیت 200 پولیو ورکر اور سکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی پاکستان میں پولیو کے کیس بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اِس معاملے میں پاکستان اور افغانستان ایک ہی جگہ کھڑے ہیں، دنیا میں صرف یہی دو ملک ہیں جہاں ابھی تک پولیو وائرس موجود ہے، باقی دنیا کو پولیو فری ہو چکی ہے۔ پہلے تو پولیو کیس افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں رپورٹ ہوتے تھے لیکن اب اسلام آباد میں بھی کیس رپورٹ ہو گیا ہے۔ انسدادِ پولیو پروگرام کے مطابق رواں سال اگست تک سامنے آنے والے پولیو کیسوں کے بارے میں جب قومی ادارہ صحت میں قائم انسدادِ پولیو لیبارٹری میں تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ وائرس کا تعلق سرحد پار کے وائرس کلسٹر (وائے بی تھری۔اے) ہی سے ہے جو کہ2021ء میں پاکستان سے ختم ہو گیا تھا لیکن افغانستان میں موجود تھا، اِس لیے بہت حد تک ممکن ہے کہ کہ پولیو وائرس افغانستان سے ہی پاکستان واپس آیا ہے۔واضح رہے کہ پولیو ایک انتہائی متعدی اور وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے جو عام طور پر پانچ سال تک کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ پولیو کا وائرس فرد کے فرد سے رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے،وائرس متاثرہ شخص کے گلے اور آنتوں میں رہتا ہے جو کہ چھینک یا کھانسی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ پاخانے، آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس انسانی آنتوں میں پھلنا پھولنا شروع کردیتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوکر فالج کا باعث بنتا ہے۔ اِس کا کوئی علاج نہیں ہے، اِس سے بچاؤکا واحدراستہ قطروں کا استعمال ہے۔
کچھ عرصہ قبل جنیوا میں ہونے والے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک اجلاس کے اختتام پر جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں پشاور سمیت مختلف جنوبی اضلاع اور بلوچستان میں کوئٹہ اور اُس کے گردونواح کے علاوہ صوبہ سندھ میں کراچی و ملحقہ اضلاع میں پولیو کی وبائی صورت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے،پاکستان میں پولیو کی موجودہ صورتحال دوسرے ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام انسدادِ پولیو کے ادارے نے 2023ء تک پاکستان سے اس کو ختم کرنے کا ہدف طے کیا تھا لیکن اب ادارے کے نگران بورڈ کا خیال ہے کہ آئندہ تین برس تک پاکستان کا پولیو سے پاک ہونا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پولیو کیسز کی تعداد 20,000تھی،سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے90ء کی دہائی میں اپنی بیٹی آصفہ بھٹو کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر مہم کا آغاز کیا تھا تو خیال تھا کہ جلد ہی اِس موذی مرض سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن 30 برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باجود بھی کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اِس کی ایک بہت بڑی وجہ پاکستانی عوام کا اپنا رویہ بھی ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں اب بھی ماں باپ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے،اُن کے نزدیک یہ نقصان دہ ہیں۔اِس حوالے سے اب تو قانون بنا دینا چاہئے تاکہ بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے والوں کے ساتھ سختی سے نبٹا جا سکے۔ دوسرا بڑا مسئلہ جعلی ویکسینیشن ہے، حال ہی میں بلوچستان کے محکمہ صحت نے صوبے میں پولیو ویکسینیشن میں جعلسازی کا انکشاف کیا ہے۔ اِس کے علاوہ ایک اور مبینہ ملی بھگت جو سامنے آئی وہ بچوں کو پلانے کے قطرے پلانے سے انکاری والدین اور پولیو ٹیموں کی تھی،متعلقہ حکام کے مطابق ٹیمیں بغیر قطرے پلائے ہی انگلی پر نشان لگا کر ریکاڑد میں اندراج کر رہی تھیں اور یا پھر ”گھر میں موجود نہ ہونے“ کی کیٹیگری میں ڈال رہی تھیں۔ اِس سلسلے میں 500 سے زائد انسدادِ پولیو ورکروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تھی۔ اِس سے زیادہ کم عقلی اور کیا ہو سکتی ہے، یہ تو اپنی ضد، اَنا اور جھوٹ میں اُلجھ کراپنے ہی بچوں کے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیو ورکر اپنے فرائض بھی اچھی طرح نہیں نبھاتے کیونکہ ان کو مناسب تنخواہ نہیں دی جاتی۔اِس کے علاوہ غربت، ناخواندگی اور اُن سے جڑے سماجی رویے،پولیو ویکسین کے بارے میں معلومات کی کمی، اس سے متعلق بے بنیاد مفروضوں اور افواہوں کا پھیلاؤ،امن و امان کی صورتحال، موسم اور دشوار گزار علاقوں تک رسائی بھی ایسے مسائل ہیں جو پولیو کے خاتمے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ اِن تمام مسائل پر قابو پائے بغیر انسدادِ پولیو مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔حکومت پر لازم ہے کہ وہ اِس حوالے سے سخت اقدامات کرے، ڈیجیٹل مردم شماری کی طرز پر پولیو کا ریکارڈ بھی ڈیجیٹائز کرے تاکہ اگر کہیں کوئی گڑبڑ کی جا رہی ہے تو اس کو روکا جا سکے۔ اِس مہم کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ ہر شہری پر بھی عائد ہوتی ہے اور سب پر اپنے اپنے فرائض کو سمجھنا اور نبھانا ضروری ہے،احتیاط ہر حال میں بہتر ہے۔