امریکی صدر کی کامیاب زندگی کے راز،ٹرمپ کی کہانی ، انہی کی زبانی ... چوتھی قسط
سوا تین بجے میں نے سر چارلس گولڈ سٹن کو فون لگایا ۔ وہ اس وقت آفس میں نہیں تھے لہٰذا میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑ دیا۔ وہ رئیل اسیٹ میں کامیاب ترین اٹارنی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ اس کی قابلیت اپنی جگہ مگر وہ میرا پسندیدہ انسان نہیں ہے۔ بعض اوقات نا پسندیدہ مگر قابل ترین لوگوں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ چارلس برونکس سے تھا لیکن وہ رئیسوں اور شاہوں سا مزاج رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے میں اس کو سر چارلس کہتا تھا۔ ویک اینڈ کے اختتام پر مجھے لی (Lee)نے بتایا کہ اس نے سر چارلس کو پالم بیچ کی ڈیل کے لیے منتخب کر لیا ہے۔ لی کو یہ علم نہیں تھا کہ میں سر چارلس کے حوالے سے کیا تحفظات رکھتا ہوں اور میرا اس سے پہلے بھی واسطہ پڑ چکا ہے۔میرا اسکے ساتھ تلخ تجربہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک دوست کو ڈیل کے دوران مشورہ دیا تھا کہ وہ سر چارلس کو اٹارنی کر لے۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی تھی کہ اس نے میرے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ میرے ساتھ(ٹرمپ) یہ ڈیل نہ کرے ۔خیر دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ میں نے پالم بیچ میں مارلاگو جیسی نہایت مسحور کن جگہ دیکھنے کے بعد گھر خریدنے کا ارادہ کیا۔ راستے میں سفید ٹاور والی ایک دلکش عمارت دیکھ کر میری نظر اس پر ٹک گئی اور میں نے پورے پس منظر کے ساتھ اس کا نظارہ کیا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ میں نے بڑی کوشش کے بعد اس سے متعلق معلومات اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ 120ملین ڈالر میں اس کو تعمیر کیا گیاتھا۔ میں بھی وہاں چالیس ملین ڈالر سے ایک پراجیکٹ خریدنا چاہتا تھا کہ میرے ایک دوست ولیم فگزے نے مشورہ دیا کہ مجھے اور لی کو مشترکہ طور پر یہ پراجیکٹ کرنا چاہئے۔ میں جانتا تھا کہ لی غیر معمولی بزنس مین ہے اور اس نے بہت کمال سے خود کو کامیاب بنایا تھا۔ میں اس کے ساتھ مل کر بڑی ڈیل کر سکتا تھا لہٰذا میں نے اس سے ٹاورز کی تعمیر سے متعلق بات چیت شروع کر دی۔ یہ کافی بہتر انوسٹمنٹ تھی لیکن مجھے اس بات کا احساس بھی ہو رہا تھا کہ لی اس معاملے میں آگے چل سکے گا یا نہیں۔ اب اس نے ایک ایسے اٹارنی کا انتخاب کر لیا تھا جو مجھے پسند نہیں تھا۔ ان تحفظات کے تحت میں اب سر چارلس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا۔
ساڑھے تین بجے میں نے اپنی بہن ماریانا بیرے کو فون کیا۔ میں اس کے ساتھ ایک جائیداد کے مقدمہ کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا جو انٹلانٹک سٹی میں دائر کیا گیا تھا۔ ماریانا نیو جرسی میں فیڈرل کورٹ جج ہے اور اس کا شوہر جان انتہائی بہترین اٹارنی ہے۔ میں نے اس سے کئی بار کام لیا ہے۔ ماریانا جانتی ہے کہ میں اس سے زیادہ قانون کو سمجھتا ہوں لہٰذا میں نے اسے بتایا کہ میں کچھ ایسی دستاویز بھیج رہا ہوں جنہیں جان اپیل کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چار بجے میں کانفرنس ہال میں چلا گیا اور سلائیڈز پر ٹرمپ ٹاورکے ڈیزائن کو دیکھا۔ میں انتہائی شاندار قسم کاچھ منزلہ اکیوریم تیار کرانا چاہتا تھا جسے دیکھ کر ہر کوئی عش عش کر اٹھے۔ نیو یارک سٹی میں یہ اپنی مثال آپ ہوتا۔ اب تواس میں ہر ہفتہ ایک لاکھ لوگ اس کو دیکھنے دنیا بھر سے آتے اور شاپنگ کرتے ہیں ۔ یہ ٹرمپ آرگنائزیشن کا باوقار منصوبہ ہے۔اور میں ایسے ہی کامیاب منصوبوں میں انوسٹ کرنا پسند کرتا ہوں۔
ساڑھے چار بجے نکولس ربز نے مجھے فون کیا ۔وہ نیوجرسی میں اٹارنی ہے اور انٹلانٹک سٹی میں میرے دونوں کسینوز کی قانونی دیکھ بھال کرتا ہے۔اس نے بتایا کہ وہ میری ایک ڈیل کے قانونی معاملات دیکھنے کے لئے سڈنی جارہاہے ۔اس نے جتایا کہ یہ چوبیس گھنٹے کی فلائٹ ہے۔ میں نے کہا کہ میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ تم میرے لئے اتنی تکلیف اٹھاتے ہو۔ اس پر بہت خوش ہوا اور اپنی تکلیف کا احساس دلانے کی بجائے وہ اس کام کو اپنی خوش قسمتی قرار دینے لگا۔اسکا یہ دورہ میرے پراجکٹ سے زیادہ مہنگا اور توجہ طلب تھا ۔ نیو ساؤتھ ویلز کی حکومت چاہتی تھی کہ دنیا کا ایک شاندار اور بلند ترین کسینو وہاں تعمیر کیا جائے ۔ ہمیں چونکہ اس پراجکٹ میں اہمیت حاصل تھی لہذا نکولس حکومتی عہدے داروں سے ملنے جارہا تھا۔اس نے مجھے تسلی دی تھی کہ جیسے ہی ان سے بات ہوئی وہ مجھے مطلع کردے گا۔
سوا پانچ بجے میں نے ہنری کسنجر سے فون پر بات کی ۔وہ این بی سی کا ایگزیکٹو ہے اور ان دنوں نئے نیٹ ور ہیڈکوارٹر کی تلاش میں تھا۔ہم پہلے ہی ایک سال سے انہیں مائل کررہے تھے کہ وہ ویسٹ یارڈ میں ہمارے قریب آجائیں ۔یہ اٹھہتر ایکڑ پر مشتمل میری وہ جگہ تھی جو دریائے ہڈسن کے کنارے واقع تھی اور یہاں میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔مجھے اندازہ تھا کہ ہنری میرے اس منصوبے کو ہائی لائٹ کرکے میری مدد کرنا چاہتا تھا ۔میں نے اس بتایا کہ ہماری اس جگہ سے پورے شہر کا نظارہ بڑا دلکش نظر آتا ہے لہذا اس پہلو کو اجاگر کرنا چاہئے۔
پانچ بج کر پینتالیس منٹ ہوئے تو میرے بڑے بیٹے ڈونی کا فون آگیا ۔اس نے پوچھا کہ میں گھر کب تک پہنچوں گا۔میں اپنے بچوں کی فون کالز ہرقسم کی مصروفیت میں سنتا ہوں، چاہے میں کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ کررہا ہوتا۔ ڈونی کے علاوہ چھ سالہ لنکا اور تین سالہ ایرک میری زندگی کا سرمایہ ہیں ۔میں جو بھی کررہا ہوں انکی خوشی اور محفوظ مستقبل کے پیش نظر کررہا ہوں ۔جب وہ بوڑھے ہوں گے تو یقیناً آسودہ زندگی گزاریں گے۔
ڈونی اگرچہ اب بڑا ہوچکا ہے اور اسکو بھی رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کا شوق ہے۔ اس کے اندر میرے ہی جینز ہیں اس لئے ٹائم کے معاملے میں خاصا منظم ہے۔ میں نے اسے کہا کہ جیسے ہی فارغ ہوتا ہوں آجاتا ہوں۔اس نے زور دیکر پوچھا ’’ ڈیڈ یہ بتائیں آپ کب تک گھر پہنچ رہے ہیں‘‘ابھی سے میں اسکے اندر خود کو دیکھ رہا ہوں۔وہ میرا پرتو ہے۔
چھ بجے تک بہت سے مزید کالیں وصول کرتا رہا اور ساتھ ہی میں خود کار سیڑھیوں پر چڑھ کر گھر کی جانب روانہ ہوگیا ۔میرا یہ گھر ٹرمپ ٹاور میں ایک شاندار اپارٹمنٹ کی صورت میں واقع ہے۔رات گئے تک میں یونہی کالیں وصول کرتا رہا اور اگلی صبح کے لئے مزید لوگوں سے رابطے میری منتظر تھے۔(جاری ہے)