کچھ ملٹری ڈرونوں کے بارے میں

تعارف
ڈرونوں کو اصطلاح میں بغیر پائلٹ گاڑیاں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گاڑیاں ایسے ہوائی جہاز ہوتے ہیں جن کے کاک پٹ میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا اور ان کو دور سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈرون ایک ایسی فضائی گاڑی (Vehicle) ہے جس کو دورانِ پرواز کسی پائلٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔آپ ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے رکھے یا دیوار پر لگے ٹیلی ویژن کو آپریٹ کرنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کر بٹن دبانا نہیں پڑتا ۔آپ وہیں بیٹھے بیٹھے ایک چھوٹے سے آلے کی مدد سے ٹی وی نشریات دیکھ اور سن سکتے ہیں، اپنے پسند کے چینل کا انتخاب کر سکتے ہیں اور آواز اونچی یا مدھم کر سکتے ہیں۔
اس آلے کو ریموٹ کہا جاتا ہے۔ آپ نے سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں یا شادی بیاہ کی تقریبات میں دیکھا ہو گا کہ ایک چھوٹا سا کواڈ کاپٹر آپ کے سر پر گردش کرتا اور بھنبھناتا رہتا ہے۔ اس کا کنٹرولر کہیں پاس ہی بیٹھا ہوتا ہے جو اس کی بلندی کم یا زیادہ اور اس کی ڈائریکشن (سمت) دائیں بائیں کرتا رہتا ہے۔
اگر اسی ڈرون کے سکیل کو انلارج اور مسلح کر دیں تو یہ ایک ایسا ملٹری ڈرون بن جائے گا جو موجودہ دور کا ایک کارگر ہتھیار گردانا جاتا ہے۔ اس ڈرون سے بہت سے سویلین کام بھی لئے جا رہے ہیں مثلاً فوٹو گرافی، فلموں کی عکس بندی، انٹیلی جنس کا حصول، نقشہ سازی، ریکی، کسی ہدف کی نشان دہی وغیرہ۔ریسکیو مشنوں میں بھی ان ڈرونوں کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔سطورِ ذیل میں ہم ڈرون کو ملٹری آپریشنوں میں استعمال کرنے کے موضوع پر کچھ تفصیل سے بات کریں گے۔
ڈرون اور ملٹری
سچ پوچھئے تو ڈرونوں کا استعمال ہی ملٹری سے شروع ہوا۔ آج ملٹری ڈرونوں کی ایسی ایسی اور اتنی زیادہ اقسام بنائی جا رہی ہیں جن کو سوچ سوچ کو دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے۔
ڈرون کے لغوی معنوں کی طرف جائیں تو اس کا ماخذ اسی نام کی ایک مکھی ہے جس کی بھنبھناہٹ ناگوار اور کراہت آمیز ہوتی ہے۔اول اول جو ملٹری ڈرون بنائے گئے ان میں شائد یہ ناگوار آواز والی خاصیت موجود تھی لیکن جوں جوں وقت گزرا یہ آواز گوارا ہوتی چلی گئی۔ شائد یہی وجہ ہو کہ ڈرون سازی کی صنعت آج بھی اس کو ڈرون نہیں بلکہ بغیر پائلٹ فضائی گاڑی (UAV)کہنے کو ترجیح دیتی ہے۔
1903ء میں امریکہ میں پہلے ہوائی جہاز نے اڑان بھری جس کا دورانیہ صرف چند سیکنڈز تھا لیکن پہلی عالمی جنگ میں (1914-18ء) طیارہ سازی کی صنعت نے اتنی ترقی کر لی کہ امریکہ اور فرانس ایک خود کار جہاز بنانے اور اڑانے کی فکر کرنے لگے۔
جب 1918ء میں یہ جنگ ختم ہوئی تو فرانس نے اس فیلڈ میں امریکہ سے ایک قدم آگے بڑھایا اور ایک ایسا طیارہ بنا لیا جو 100 کلومیٹر تک بغیر پائلٹ کے اڑ سکتا تھا۔
ستمبر1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو بغیر پائلٹ جہاز بنانے کی مانگ میں اضافہ ہو گیا۔
وجہ یہ تھی کہ اس جنگ میں اتحادیوں اور محوریوں کے بہت سے جہاز ضائع ہونے لگے تھے۔ یہ ہوائی جہاز زیادہ تر دشمن کی ریکی کرتے ہوئے ضائع ہوئے۔ چنانچہ طیارہ ساز کمپنیاں اور ان کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس نقصان کو کیسے کم کیا جائے۔
ایک ایسے جہاز کی ضرورت زور پکڑنے لگی جس میں کوئی پائلٹ نہ ہو۔ یعنی اڑن کھٹولے کا ضیاع تو قابلِ برداشت تھا اڑانے والے انسان کا نہیں۔ ضائع شدہ ہوائی جہاز بنانا آسان تھا لیکن ضائع شدہ پائلٹ کا نقصان پورا کرنا وقت طلب بھی تھا اور مشکل بھی۔
1945ء میں جب یہ دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو بغیر پائلٹ جہاز بنانے میں کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی۔ پھر کوریا کی جنگ (1950-53ء) میں بھی یہی کچھ ہوا۔ لیکن جب ویت نام کی جنگ شروع ہوئی تو یہ اتنی خونریز تھی کہ اس میں امریکی فضائیہ کا بہت جانی اور اسلحی نقصان ہونے لگا۔ چنانچہ 1973ء میں ویت نام کی جنگ میں پہلی بار ڈرونوں کو مشاہداتی مشنوں (Observation Missions) میں استعمال کیا گیا۔ 1973ء کے بعد بات آبزرویشن سے نکل کر آگے جانے لگی۔
یہ دیکھا گیا کہ میدان جنگ میں ڈرونوں کے استعمال کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی دیکھا گیا کہ دشمن کی صفوں کے عقب میں اگر بغیر پائلٹ جہاز استعمال کئے جائیں تو مشین اگر برباد بھی ہو جائے تو انسان بچ جاتا ہے۔
طیارہ سازی کی صنعت میں اب بغیر پائلٹ جہازوں کا ایک سسٹم وضع ہونے لگا۔ (کسی ملٹری ہتھیار کی ساخت، اس کے استعمال اور اس کی تاثیر کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر جو مربوط اجتماعی نظام وضع کیا جاتا ہے وہ ملٹری سسٹم کہلاتا ہے۔) اس بغیر پائلٹ گاڑی (UAV) کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ایک ملٹری سسٹم کہا جانے لگا:
1۔ کسی ٹارگٹ کی آبزرویشن کے لئے ایک سے زیادہ ڈرونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ڈرونوں میں مختلف انواع و اقسام کے سنسر بھی لگانے پڑتے ہیں۔
2۔جن سٹیشنوں سے ڈرونوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان میں لگے سنسروں سے کئی طرح کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں، اس کے لئے کئی گراؤنڈ کنٹرول سٹیشن بنانے پڑتے ہیں۔
3۔ ڈرونوں اور کنٹرول سٹیشنوں کے مابین ریڈیو / وائر لیس مواصلات کا نیٹ ورک بھی قائم کرنا پڑتا ہے۔
ملٹری ڈرونوں کی اقسام
دنیا بھر کی افواج میں ملٹری ڈرونوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ اقسام ڈرون کے وزن، اس کی رینج ، اس کی رفتار اور دوسری کئی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر طے کی جاتی ہیں۔ ناٹو کی افواج میں ملٹری ڈرونوں کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔ کلاس وَن: ان ڈرونوں کا وزن زیادہ سے زیادہ 150کلوگرام تک ہوتا ہے۔ تاہم ان کا حجم چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے۔
ان کو دشمن کی انٹیلی جنس، اس کی سروے لینس، حصولِ ٹارگٹ اور ریکی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اس کلاس کی بہترین قسم ’’فل مارک فکسڈ ونگ‘‘ (Full Mark Fixed Wing) ڈرون کہلاتی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ ٹیک آف وزن 20 کلو گرام ہے، رینج 90کلومیٹر تک ہے اور یہ 12گھنٹے تک فضاء میں رہ سکتا ہے۔(اصطلاح میں فضا میں موجود رہنے کو Enduranceکہا جاتا ہے۔) اس ڈروں کو بالعموم زمینی اور سمندری سروے لینس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی منجنیق (Catapult) کے ذریعے اسے لانچ کیا جاتا ہے۔ یہ لانچ گراؤنڈ سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی بحری جہاز (Ship) کے عرشے سے بھی۔۔۔ اس کا ڈیپلائے منٹ ٹائم صرف آدھ گھنٹہ ہے ۔یہ سطحِ آب پر بھی لینڈ کر سکتا ہے۔
کلاس ٹَو: (150کلو گرام سے لے کر 600کلو گرام تک)۔۔۔ اس کلاس کو ٹیکٹکل ڈرون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈرون، فوج کی بٹالین لیول کے لئے یا سپیشل فورسز کے لئے ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔ ان کی مدد سے میڈیم رینج کی سروے لینس حاصل کی جاتی ہے۔ یہ کلاس گویا کلاس ون اور کلاس تھری کے درمیان پائے جانے والے رینج کا درمیانی خلا پُر کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔
ان ڈرونوں کو میدانِ جنگ کی صورتِ حال سے آگاہی پانے اور حصولِ ٹارگٹ (Target Acquisation) کے لئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔
کلاس تھری: (600کلو گرام سے زیادہ )۔۔۔ یہ کلاس سب سے بڑی کلاس ہے اوردرمیانی اور ہائی درجے کی بلندیوں کے لئے تشکیل دی جاتی ہے۔ جن مقامات پر دشمن کی طرف سے جوابی حملہ کا خطرہ نہ ہو، وہاں اس کلاس کے ڈرونوں کو بالخصوص سروے لینس اور ریکی کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
ان ڈرونوں سے مختلف مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ ان کا سارا انفراسٹرکچر سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مشہورِ زمانہ امریکی ریپر (Reaper) اور پری ڈیٹر (Predator) ڈرونوں کی نسل کا تعلق اسی کیٹیگری سے ہے۔ ان کے علاوہ ’’گلوبل ہاک‘‘ فیملی کے ڈرون بھی اسی قبیل میں شمار ہوتے ہیں۔
فنکشن کی بنیاد پر کلاسی فیکیشن
ڈرونوں کو ان کے رول کی بنیاد پر بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور ان سے مختلف طرح کے رول ادا کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کیٹیگری میں درج ذیل ڈرون شمار کئے جاتے ہیں:
1۔ ٹارگٹ/ ڈیکائے کے طور پر:یہ زمین اور فضائی توپخانے کی ٹارگٹ پریکٹس کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان ڈرونوں کو ایکسرسائزوں میں دشمن کی طرف سے لانچ اور فائر کئے جانے والے طیاروں اور میزائلوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
2۔ ریکی ڈرون: یہ میدانِ جنگ کی انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
3۔کمبٹ ڈرون: یہ ڈرون ہائی رسک مشنوں کے لئے اٹیک کرنے کی اہلیت کے لئے حامل تصور کئے جاتے ہیں۔
4۔ریسرچ ڈرون: یہ ڈرون مختلف طرح کی ریسرچ اور ڈویلپ منٹ کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
5۔سول اور کمرشل ڈرون: یہ وہ ڈرون ہیں جن کو سویلین اور کمرشل مقاصد کے حصول کے لئے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
خود کار ڈرون
بغیر پائلٹ جہاز (UAV) یا ڈرون کا مطلب جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ اس کو پائلٹ کرنے والا کوئی انسان اس کے کاک پٹ میں نہیں بیٹھا ہوتا بلکہ کہیں، دور یا نزدیک، کسی جگہ بیٹھا ہوتا ہے۔تاہم وہ کنٹرول سٹیشن جس میں یہ آپریٹر بیٹھا ہوتا ہے وہ ڈرون اس کی لانچنگ کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب ایک بار کوئی ڈرون ائر بورن ہو جاتا ہے تو اس کو ریموٹ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ڈرون ساز ماہرین ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ڈرون کے اندر ایک ایسا خودکار نظام نصب کر دیا جائے جو نہ تو کسی گراؤنڈ لانچنگ کا محتاج ہو اور نہ کسی کنٹرول سٹیشن سے ہدایات لے کر اپنی بلندی اور ڈائریکشن طے کرے۔ اسے آپ خود کار ڈرون (Autonomous Drone) بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک مختلف طرح کا ڈرون ہو گا اور اس کی کارکردگی اور اہلیت بھی مختلف طرز کی ہو گی۔
ہم جانتے ہیں کہ اول اول جو ڈرون بنائے گئے وہ اتنے پیچیدہ (Sophisticated) نہیں تھے اور ان کو ایک آپریٹر کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ تاہم اب ایسے ڈرونوں پر تجربات کئے جا رہے ہیں جن کا گائیڈنس سسٹم کسی آپریٹر کا محتاج نہیں رہے گا۔ ایک بار جب کسی ڈرون میں مطلوبہ معلومات فیڈ (Feed) اور سٹور کر دی جائیں گی تو وہ اپنی رفتار، بلندی، ڈائریکشن اور پروازی راستے کا تعین خود کرے گا۔
حرفِ اختتام
یہ خود کار ڈرون ابھی معرضِ تکمیل میں ہے۔اس میں ’’مصنوعی انٹیلی جنس‘‘ کی ڈویلپمنٹ میں کئی تجربات کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ڈرون سازی کا کیف و کم کیا ہے۔ ان موضوعات پر ایک اور کالم کی ضرورت ہے۔