مولوی سعید اظہر ۔۔۔ ایک منفرد شخصیت کے حامل منفرد صحافی

مولوی سعید اظہر بھی گزشتہ دنوں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دار ِ فانی سے عالم ِ جاودانی کو سدھار گئے ۔وہ مثانے کی تکلیف میں مبتلا تھے اور ایک نجی ہسپتال میں آپریشن کروانے کے باوجود مرض سے جان نہ چھوٹ سکی جس پر انہوں نے سروسز ہسپتال سے رجوع کیا اور وہاں زیر علاج رہے ۔ پنجاب حکومت کی سفارش پر انہیں ہسپتال کے وی آئی پی روم میں شفٹ کیا گیا جہاں پر ماہر امراض گردہ و مثانہ ان کا علاج کرتے رہے ۔اس دوران ان کے چاہنے والے ان کی عیادت کےلیےہسپتال آتے رہے اور ان کی دل جوئی کرتے رہے,وہ زندہ دل انسان تھے ہسپتال میں بھی وہ کسی قسم کی مایوسی یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوئے اور ہر ملاقاتی کے ساتھ اپنی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ ملتے رہے۔جب سے کرونا وائرس کی وجہ سے شہر میں جزوی لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں کی آمدورفت اور معمولات زندگی میں تعطل پیدا ہواہے ان سے ملنے والوں میں بھی کمی واقع ہوتی گئی ۔ان کی دیکھ بھال کے لئے اہل خانہ کے علاوہ ان کے چند قریبی دوست ہی رہ گئے تھے۔مولوی سعید اظہر نے تقریبا 74 سال عمر پائی اور9 اپریل 2020ء کو وہ اس جہان سے رخصت ہوگئے ۔
سعیداظہر روایتی مولوی نہیں تھےلیکن مولوی ان کےنام کاحصہ بنادیا گیا تھاجسےانہوں نے” بخوشی “قبول بھی کر لیا تھا،وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل انسان تھے ۔وہ ایک ایسے اخبار نویس تھے جس کی کوئی اور مثال یا نقل صحافیوں کے ” دستیاب سٹاک “ میں موجود نہیں،گویا وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ وہ بہت دلچسپ انسا ن تھے ۔ان کے ساتھ بات چیت کرنے کا مز ا آ جاتا تھا ۔وہ کمال کے سچے اور کھرے آدمی تھے ۔قدرت نے بے پایاں صلاحیتوں سے انہیں نوازا تھا۔میری ان کے ساتھ شناسائی یا تعارف کم و بیش پینتیس برس پہلے ہوا تھا ۔
لاہور سے روزنامہ ” جمہور ‘ ‘ کا اجرا ہوا تو اس سے وابستہ سینئر صحافیوں میں مولوی سعید اظہر بھی شامل تھے۔میں ان دنوں کالج میں پڑھتا تھا اور لکھنے پڑھنے کا شوق میری اس دور کے سینئر صحافیوں سے ملاقاتوں کا سبب بنتا تھا۔اس دور کے معروف صحافیوں ظہور عالم شہید، رانا اکرام ، مسعود جاوید ہمدانی، بشیر احمد ارشد، حافظ سلیم تابانی، چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ، حمید جہلمی، ہارون سعد، منو بھائی ، وحید عثمانی، اسلم کاشمیری، اظہر جاوید تاج الدین حقیقت، ، جمیل اطہر قاضی، ریاض بٹالوی، سعید بدر، شفقت تنویر مرزا وغیرہ کے ساتھ علیک سلیک اور سلام دعا رہتی تھی ۔روزنامہ ” جمہور “ میں خاتون صحافی رانا اکرام کی اہلیہ محترمہ نزہت اکرام ہوا کرتی تھیں بڑی نفیس اور شفیق خاتون تھیں،وہ خواتین ، بچوں اور طلبہ و طالبات کے صفحات کی انچارج ہوا کرتی تھیں اور راقم اس اخبار میں مضامین لکھا کرتا تھا اور اسی سلسلے میں وہاں آنا جانا ہوتا تھا ۔ اسی اخبار میں میری ملاقات مولوی سعید اظہر سے بھی ہوئی اور پھر ایسا تعلق خاطر قائم ہوا جو آخری وقت تک برقرار رہا ۔ ان کے دوست مستقل نوعیت کے تھے یعنی جس سے دوستی کی اسے خوب نبھایا ۔
رونامہ ” ایکسپریس “ کے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر مرحوم ان کے دیرینہ اور بے تکلف دوستوں میں سے تھے ۔سعید اظہر پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور انتہائی وضعدار اور خود دار انسان تھے۔ان کی زبان میں لکنت تھی اور وہ منو بھائی کی طرح گفتگو کرتے ہوئے ہکلاہٹ کا شکار ہوجاتے تھےلیکن ان کی یہ کمزوری ان کی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے کبھی غالب نہیں آئی تھی بلکہ یار لوگ اس سے حظ اٹھایا کرتے تھے۔لطف کی بات یہ ہے کہ زبا ن کی اس کمزوری کے باوصف ان کی تحریر میں بلا کی چاشنی ہوتی تھی ۔ شروع شروع میں ان پر مذہبی جذبات کا غلبہ تھا لیکن وہ اس حوالے سے کبھی انتہاپسند انہ سوچ نہیں رکھتے تھے البتہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ضرور تھے،اپنے نظریات کے حوالے سے وہ پختہ سوچ کے حامل تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کی طرف سے ملنے والی پھانسی کی سزا کو انہوں نے کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہمیشتہ ” عدالتی قتل “ ہی کا نام دیتے تھے اور اسے ظلم اور زیادتی سے ہی تعبیر کرتے تھے ۔ان کی اس سوچ کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نمایا ں طو پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ ابتدا میں ان کی تحریر میں اس قدر ثقالت نہیں ہوتی تھی لیکن بعد ازاںاس میں قدرے بوجھل پن زیادہ آگیا تھا تاہم وہ اپنی بات ہمیشہ منطقی انداز میں کرتے اور دلیل کے سہارے اسے منواتے تھے ۔
ان کی تحریر میں بلا کی کاٹ ہوتی تھی ،لفظوں کا استعمال ، جملوں کی ساخت میں وہ ید ِ طولا رکھتے تھے ،ان کا اپنا اسلوب اور اپنا ہی رنگ تھا ،ان کی تحریر کے جوہر اس وقت کھلے جب وہ حسن نثار اور مظفر محمد علی ( ٹرپل ایم اے ) کے ساتھ اس ” زنجیر “ کی ٹرائیکا کا حصہ بنے ۔اس کی جاگ تو انہیں” چٹان “ میں ہی لگ چکی تھی تاہم وہ روزنامہ ” جنگ “ سے منسلک ہونے کے بعد سے خاص طورپر ان کی سوچ ، فکر میں یہ عنصر مزید گہرا ہوتا گیا اور پھر انہوں نے اپنے کالموں میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خانوادے حتیٰ کہ آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول علی زرداری کو بھی بھرپور طریقے سے ” پروجیکٹ “ کیا ،وہ ان کے ” فکری وکلاء “ کی ٹیم کے سرخیل تھے۔مولوی سعید بلاشبہ بڑے پیار کرنے والے انسان تھے،جب بھی ملاقات ہوتی ہمیشہ پہلے سے زیادہ گرم جوشی اور اپنائیت سے ملتے اور ملنے والے کے دل میں کبھی اپنے بڑے ہونے کا احساس نہ پیدا ہونے دیتے ۔ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات ایک سینئر صحافی دوست کی رحلت پر ان کے اعزاز میں لاہورپریس کلب میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس کے موقع پر ہوئی جس میں میرے علاوہ انہوں نے بھی اظہار خیال کیا اوراب کی وفات کے بعد ان سے ہونے والی تمام ملاقاتیں یادوں کا تکلیف دہ حصہ بن چکی ہیں جو کبھی بھی محو نہ ہوسکیں گی ۔ اللہ کریم ان کے بے حساب مغفرت فرمائے ۔
(شہباز انور خان شہرِ لاہورکے سینئر ترین صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں،علم و ادب اور شاعری سے گہرا شغف رکھنے والے شہباز انور خان تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے اہم قومی اخبارات میں رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے آ رہے ہیں ،،فیڈ بیک کے لئے اُن کے موبائل نمبر 03208421657 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔