نماز تراویح کی اہمیت

نماز تراویح کی اہمیت
نماز تراویح کی اہمیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ راحت سے لیا گیا ہے، یعنی ایک دفعہ آرام کرنا۔ دو رکعتوں کے بعد ایک دفعہ سلام پھیرنا اور رمضان کی راتوں میں باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ ہر دو سلاموں کے بعد (چار رکعت کے بعد) کچھ آرام کرتے تھے۔ خود  تراویح کا صیغہ بتلا رہا ہے کہ تراویح کی رکعت آٹھ سے یقینا زائد ہیں۔ تب ہی تو آرام کا تصور اس صیغے سے ملتا ہے۔ نمازِ تراویح مردوں اور عورتوں کے لئے بیس رکعت سنت ِ مؤکدہ ہے اور مردوں کے لئے یہ مسنون ہے کہ مسجد میں با جماعت صلوٰۃِ تراویح ادا کریں۔ البتہ خواتین گھر میں تراویح کی نماز ادا کریں۔ 


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نمازِ تراویح پڑھی۔ لوگوں نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہو گئے۔ تیسری یا چوتھی رات آپؐ نماز تراویح کے لئے مسجد تشریف نہ لائے اور صبح فرمایا: میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اسی ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کر دی جائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قیام رمضان کی ترغیب دیتے۔ آپؐ فرماتے جو شخص رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھے اور ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیں گے۔ نبی اکرمؐ کی وفات تک یہی  عمل جاری رہا۔ دورِ صدیقی ؓاور ابتدائے عہد ِ فاروقی   ؒ میں بھی یہی عمل جاری رہا۔ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: 
”جس شخص کا یہ خیال ہو کہ نبی اکرمؐ نے تراویح کی کوئی تعداد مقرر کی ہے، جس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تو وہ غلطی پر ہے“۔
شو کا نی   ؒ  نیل الاوطار میں رقم طراز ہیں:”مسئلہ تراویح کی تمام روایات میں نمازِ تراویح، اس کا با جماعت یا تنہا پڑھنا تو ثابت ہے، لیکن خاص نمازِ تراویح کی تعداد اور اس میں قرات کی تعیین آنحضورؐ سے منقول نہیں“۔
حضرت ابوبکر صدیق  ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ کے ادوار میں نمازِ تراویح کا طریقہ کارِ عہد نبویؐ کی طرح تھا۔ بیس رکعت کی تعداد حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں مقرر ہوئی۔ اس مبارک دور میں حسب ذیل صورت حال تھی:  (1)  پورا رمضان تراویح پڑھنا۔  (2)  تراویح کا مستقل یا باجماعت پڑھنا۔ (3)  بیس رکعت تراویح پڑھنا۔ (4) رمضان میں وتر با جماعت پڑھنا۔ 
امام مالکؒ نے لکھا ہے: ”حضرت عبدالرحمنؓ قاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق ؓ کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں،کوئی تو اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ شریک ہیں۔ اس پر حضرت فاروق ؓ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کر دیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی ؓ بن کعب کی اقتداء میں جمع کر دیا۔ (بحوالہ الموطا)
حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسرے دن نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں  تو حضرت عمر فاروق    ؓ نے فرمایا: یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ میں سو جاتے ہو وہ اس وقت سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہو کر گزارتے ہو۔ آپ کا مقصد اس سارے حصہ کی اہمیت بتلانا تھا اور رات کا ابتدائی حصہ تو لوگ پہلے ہی نماز میں گزارتے تھے“۔
      امام ابن تیمیہ  ’الفتاوی المصریہ‘ میں رقمطراز ہیں:  ”جب حضرت عمر فاروق ؓ نے سب صحابہ کرام  ؓ کو حضرت ابی بن کعبؓ کی امامت میں جمع کیا اور حضرت عمر فاروق  ؓ خلفاء راشدینؓ میں سے ہیں جن کی بابت حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ  کی سنت پر عمل کرو اور اس کو داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھو۔امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داڑھوں کا ذکر اس لئے کیا کہ داڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ الغرض! حضرت عمر فاروق    ؓ کا یہ اقدام عین سنت ہے“۔
حضرت عثمان غنی ؓ  کے عہد مبارک میں بھی بیس تراویح پڑھائی جاتی رہیں۔ حضرت سائبؓ بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں صحابہ کرام ؓ بیس رکعت پڑھتے تھے اور ایک سو سے زائد آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان غنی ؓ کے دور میں تو بعض لوگ شدت قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے۔ 
حضرت علیؓ نے بھی اپنے دورِ مبارک میں بیس تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے رمضان میں قراء  حضرات کو بلایا اور ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائیں۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ وتر حضرت علیؓ پڑھاتے تھے۔ حضرت ؓ کے ساتھیوں میں سے حضرت شیتر بن شکلؓ رمضان میں بیس تراویح اور وتر پڑھایا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے جلیل القدر ساتھی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  بھی بیس تراویح پڑھا کرتے تھے۔ حضرت اعمشؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کا معمول بھی بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھنے کا تھا۔ 
تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ امام شافعیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ  بعض مالکیہؒ اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ با جماعت پڑھنا بہتر ہے، کیونکہ حضرت عمر فاروق ؓ اور صحابہ کرامؓ نے ایسا ہی کیا۔ اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ اہل ِ مکہ اور اہل ِ مدینہ میں بیس رکعت تراویح پڑھنے کا معمول چلا آرہا ہے۔ سعودی عرب کے جید عالم اور مسجد نبویؐ کے معروف مدرس قاضی شیخ عطیہ سالم نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے۔ 
رمضان المبارک ایک با برکت مہینہ ہے۔ اس میں جتنی عبادت کی جائے کم ہے۔ اس مقدس مہینے میں ایک رکعت کا ثواب کم از کم ستر گنا اور اخلاص و خشوع کی مناسبت سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہی کوشش ہونی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا ذخیرہ کیا جائے۔ بیس تراویح پڑھنے والے کو اس ماہ میں کم از کم بیالیس ہزار رکعت کا ثواب ملتا ہے۔ مزید وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ تراویح آٹھ نہیں ہیں،بلکہ بیس ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ رمضان المبارک میں نبی کریمؐ کا قیام اتنا طویل ہوتا تھا کہ قدم مبارک سوج جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سرکار دو عالمؐ کے نقش ِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین! 

مزید :

رائے -کالم -