کیا تکمیل پاکستان کی جنگ کا آغاز ہو چکا ؟
مشرقی پاکستان کو بھارت کی آشیر باد، مکتی باہنی کی ماردھاڑ اور شیخ مجیب الرحمان کے گٹھ جوڑ سے بنگلہ دیش تو بنا لیا گیا لیکن ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گاکہ بنگلہ دیش میں ہمیشہ دو لابیاں ہی کام کرتی رہی ہیں۔ ایک لابی ہندوؤں کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کرتی تھی تو دوسری لابی ایک ہی باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر دل و جان سے پاکستان سے محبت کرتی تھی۔ اس لابی میں جماعت اسلامی، بہاری مسلمانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں جماعت اسلامی کے آٹھ دس سرکردہ رہنماؤں کو اپنی من پسند عدالتوں سے سزائے موت دلواکر پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ اب بھارتی لابی کے سامنے کوئی سراُٹھانہیں سکتا۔وہ بہاری مسلمان جنہوں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور مکتی باہنی کی قتل و غارت کے دوران پاک فوج کی عملی طور پر مدد کی تھی۔انہوں نے بھی 53سال بدترین حالات میں سرزمین بنگلہ دیش میں گزار تو لیے، لیکن جب بھی ان سے پوچھا گیا کہ آپ بنگلہ دیش کی نیشنلیٹی قبول کرلیں تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا وطن ہے،چاہے کتنی نسلیں بدترین ماحول میں زندگی گزارکر قبروں میں اُتر جائیں۔ ہمیں قلبی سکون اسی وقت حاصل ہوگا جب ہم اپنے وطن پاکستان جائیں گے،اسے میں بدقسمتی ہی قرار دوں گا کہ پاکستان میں اقتدار کی جنگ میں دست و گریبان ہونے والے سیاستدانوں کی توجہ کبھی بہاری مسلمانوں کی حالت زار کی جانب مبذول نہیں ہوئی۔ صرف نواز شریف نے بہاری مسلمانوں کو اپنے دور حکومت میں وطن واپس لاکر سرزمین پنجاب میں بسایا جو آج بھی یہاں پُرسکون ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بننے کے باوجود ذہنی طور پر پاکستان کے زیادہ اس لیے قریب تھی کہ وہ ہندوؤں کی غلامی کیسے اختیار کر لیتی۔ وقت گزرتا رہا، جبر و تشدد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب بنگلہ دیش کی سرزمین پر پاک بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین شاید ایشیاء کپ کا فائنل کھیلا جا رہا تھا۔ سٹیڈیم میں موجود ایک تہائی فیصد تماشائی بھارتی ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے، جبکہ تماشائیوں کی بہت بڑی تعداد ہر چوکے اور چھکے پر پاکستانی ٹیم کے حوصلے بڑھا رہی تھی، میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ ایک ہی باپ (قائداعظم محمد علی جناح ؒ) کے دو بیٹوں میں جتنے مرضی اختلافات پیدا ہو جائیں، لیکن ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون انہیں اپنے باپ اور بچھڑے بھائی کی یاد ضرور دلائے گا،حالانکہ میری اس بات کی ابتداء تو اس وقت ہو گئی تھی، جب آزادی کے چھ سال بعد ہی جونیئر فوجی افسروں نے بغاوت کر کے بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمان کے پورے خاندان کا صفایا کردیا تھا۔ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جب دارالحکومت ڈھاکہ کے فیشن ایبل علاقے دھان منڈی کی جانب اچانک تین ٹینک بڑھ رہے تھے، جہاں شیخ مجیب الرحمان کا پرآسائش بنگلہ تھا اور مسلح افواج کا ایک دستہ ڈھاکہ کے شمال مغرب میں واقع سادر پہنچ گیا،جہاں شیخ مجیب الرحمان کی پرائیویٹ محافظ فوج ”راکھی باہنی“ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ راکھی باہنی کو بھارتی فوج نے تربیت دی تھی اور شیخ مجیب الرحمان اس کے ذریعے اپنے مخالفوں کو ہراسا ں کرنے، ان کے جلسے الٹوانے،اپنی پارٹی کے باغی افراد کو پٹوانے کا کام لیاکرتے تھے۔فوج کے مقابلے میں انہیں جدید ترین اسلحہ، تیزرفتار گاڑیوں سمیت کہیں زیادہ سہولتیں حاصل تھیں۔جب بنگلہ دیشی فوج کے فوجی دستوں نے ان پر یلغار کی،کچھ دیر تو مقابلہ ہوتا رہا پھر جب ایک فوجی افسرنے میگا فون پر اعلان کیا کہ راکھی باہنی کو چاروں اطراف سے گھیر لیا گیا اگر جان کی امان چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال دو، وگرنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ،اعلان ختم بھی نہ ہوا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کی ذاتی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے۔دوسری جانب شیخ مجیب الرحمان کے گھر گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی، اس لمحے میجر ہدی نے ایک دستاویز شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کی۔ یہ صدارت سے استعفیٰ کی دستاویز تھی۔ شیخ مجیب الرحمان سے اس دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا گیا توانہوں نے سخت لہجے میں انکار کیا اور فوجی افسر پر برس پڑے،اس لمحے شیخ مجیب کا بیٹا شیخ جمال گولیوں سے بھرا ہوا پستول ہاتھ میں لہراتا ہوا باپ کے کمرے میں آیا،اس سے پہلے کہ شیخ جمال گولی چلاتا،وہاں موجود فوجیوں نے اسے موت کی نیند سلا دیا۔اس پر شیخ مجیب نے میجر ہدی کو گالیاں دیں۔اتنے میں شیخ مجیب کا دوسرا بیٹا شیخ کمال پہرے پر مامور ”راکھی باہنی“کو مخاطب کرکے بچاؤ بچاؤ کا شور مچاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔میجر ہدی نے اپنی سٹین گن کا منہ کھولا اور تڑختی چٹختی گولیوں نے آنِ واحد میں باپ اور بیٹے دونوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیشی فوج کے ایک جونیئر افسر نے بے رحمانہ انداز میں مار ڈالا۔یہ واقعہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ بنگلہ دیشی فوج اور عوام میں بھارت مخالف لابی مستقل طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے 16 سالہ دورِ حکمرانی میں نہ صرف اپنے ہاتھ مضبوط رکھے بلکہ تمام اہم عہدوں پر اپنے وفادار افراد کا تقرر کرکے خود کو محفوظ کرلیا تھا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے جو چاہا وہی کیا۔ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشی عدالتیں بھی اس کے اشاروں پر ناچتی رہیں،جو بھی ان کے سامنے کھڑا ہونے کی غلطی کرتا،اسے منظر سے ہٹا دیا جاتا۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف جب بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے تو پولیس کی فائرنگ سے400 سے زائدافراد شہید ہو گئے۔ان شہادتوں کے بعد عوام اور طلبہ کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حسینہ واجد نے مظاہرین کو دہشت گرد کہہ ڈالا، جبکہ آرمی چیف کی جانب سے یہ مثبت بیان آیا کہ میں حکومت کی بجائے اپنے عوام کے ساتھ ہوں۔اس طرح حسینہ واجد نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت فرار ہو گئی اور بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے،اب اس کے بعد اُمید کی جاسکتی ہے کہ بنگلہ دیشی عوام ذہنی طور پر پاکستان کے قریب آئیں گے۔ بچھڑا ہوا بھائی اگر ایک بار پھر مل جائے تو اسے بچھڑا نہیں کہتے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک بار پھر مشرقی پاکستان بنے گا اور مغربی پاکستان کے ساتھ کنفڈریشن قائم ہو جائے گی۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اس کی حمایت اور دفاعی چھتری مشرقی پاکستانی حکومت اور عوام کو بھارت کی ہندو لابی سے بخوبی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ ان شا اللہ۔