دو قومی نظریہ زندہ ہے
ڈھاکہ میں بھارت کی پشت پناہی سے 16 سال سے بزور طاقت، بزور جبر و فسطائیت اقتدار میں رہنے والی حسینہ واجد ”رخصت“ ہوئیں۔ مجھے پہلے بھی یقین تھا آج میرا یقین اور پختہ ہوگیا کہ دو قومی نظریہ ایک سچائی تھی اور یہ سچ 2024ء میں بھی زندہ جاوید ہے۔ مجھے یقین ہے میرا آج کا یہ کالم دیکھ کر اور پڑھ کر اس ملک کے ”ترقی پسند اور لبرلز“ کو بہت زیادہ تکلیف پہنچے گی۔ یہ ان کے لئے ”ایک تکلیف دہ ایک کالم ہو گا“ لیکن کہتا ہوں ”سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے“۔ آج مجھے 14 اگست1947ء یاد آرہا ہے وہ دن جب ایک وکیل (جناب حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ) نے اپنے کالے کوٹ کے ذریعے اس وقت کی سب سے بڑی سپر پاور برطانیہ سے ”مقدمہ“ لڑا اور جیت کر دکھایا۔ قائداعظم کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آئی وہ اسلامی مملکت کہ جو دو حصوں میں تقسیم تھی اور ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ کہا یہ گیا کہ یہ ملک نہیں چلے گا، کہا یہ گیا کہ یہ مملکت چند دِنوں کے مہمان ہو گی، لیکن وقت نے دیکھا کہ ٓآج 76 سال بعد ایک نہیں دو۔ دو اسلامی مملکت دنیا کے نقشے پر پوری شان و شوکت، طاقت سے بھارت کے دونوں اطراف موجود ہیں، زندہ ہیں، سلامت ہیں، اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مانا بھارت نے اپنا سازشی بنیا ذہن استعمال کر کے 1971ء میں ایک سازش کر کے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں میں علیحدگی کے بیج بو کر ایک الگ ملک بنگلہ دیش بنا لیا تھا، وہ بنگلہ دیش کہ جس کے وجود میں آنے پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ”آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا“ اور پھر ”ہندوتوا“ کے پیشوا اور بھارتی ہندو قاتلوں کی تنظیم ”راشٹریہ سیوک سنگھ المعروف آر ایس ایس“ کے سربراہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسی بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں یہ ”اعتراف“ کیا تھا کہ ہاں بنگلہ دیش ہماری فوج نے بنایا، ہم نے یہ ملک آزاد کرایا، ہم نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے، لیکن وہی بنگلہ دیش جہاں پر نریندر مودی کی کوششوں اور ”را“ کی پشت پناہی سے ایک بھارت نواز حکومت گزشتہ 16 سال سے اقتدار میں تھی آج اس ملک کو اس بھارت کی ”بالواسطہ“ غلامی سے آزادی مل گئی ہے۔وہ ملک جہاں ”پاکستانی کہہ کر بزرگوں“ کو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے پھانسی دلوائی۔ آج اسی حسینہ واجد کی حکومت کو عوام کی طاقت نے، عوام کے جم غفیر نے اپنی طاقت کے بل بوتے، ملک سے بھاگنے اور اپنے ”خیر خواہ بھارت“ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ حسینہ واجد صرف ایک دن کی سول نافرمانی تحریک برداشت نہیں کر سکیں۔ ان کو اپنی قوم سے آخری خطاب کی مہلت بھی نہ ملی اور وہ اپنی بہن کے ساتھ ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ فرار ہو گئیں۔ یہ ہے فسطائیت کا انجام، عوام پر ظلم کرنے والوں کا انجام، عوام کو اپنا غلام سمجھنے والوں کا انجام، عوام کی آواز دبانے والوں کا انجام اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے۔ عوام کو بے بس اور غلام سمجھنے والوں کو یاد رکھنا چائیے ”عوام جب نکلتے ہیں“تو پھر وہی ہوتا ہے جو ڈھاکہ میں ہوا، بنگلہ دیش میں ہوا۔ یاد رہے کہ آزادی کی اس جدوجہد کا آغاز انقلاب فرانس تھا۔ جہاں لوگ ملکہ کے ظلم کے خلاف گھروں سے نکلے اور پھر ملکہ اور اس کے ساتھیوں کے سر ”گلوٹین“ سے کاٹ دیے تھے۔ حسینہ واجد خوش قسمت ہیں کہ انہیں فوج کے سربراہ (ان کی کزن کے شوہر) نے بچا لیا،کیونکہ اگر وہ کچھ دیر اور اپنے محل میں مہمان رہ جاتیں تو پھر اس”محل میں گھسنے والے“ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے اس کے تصور سے حسینہ واجد آج بھی یقینا کانپتی ہوں گی۔
حسینہ واجد آج کل بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک ”سیف ہاؤس“ میں مقیم ہیں۔ یہ سیف ہاؤس جو یقینا ”را“ کا بنایا ہو گا اور جہاں ”را کے دشمنوں“ کو رکھا جاتا ہو گا،حسینہ واجد نے اپنے طویل اقتدار میں یقینا کچھ دوست بھی بنائے ہوں گے، لیکن آج حالت یہ ہے کہ کوئی بھی مغربی ملک بشمول برطانیہ اور امریکہ انہیں قبول کرنے پہ تیار نہیں ہے۔ امریکہ نے تو ان کا " Valid " ویزا منسوخ کر دیا ہے۔ برطانیہ کو یہ پتہ ہے کہ اگر حسینہ واجد کو پناہ دی تو برطانیہ میں مقیم لاکھوں بنگالی اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ یہ وہ خوف ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک حسینہ واجد کو برطانیہ میں قیام کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حسینہ واجد اور ان جیسے ”طاقتور“ حکمران جب حکومت میں ہوں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ”طاقت“ ایک دن یقینا ختم ہو جائے گی اور اس طاقت کے ختم ہونے کے بعد جب ”برا وقت“ آئے گا تو پھر کیا ہو گا کچھ ایسے ہی نام آج آپ کو یاد دلا دیں۔ یوگنڈا کے فوجی صدر عیدی امین کو 1979ء میں جب ایک بغاوت کے نتیجے میں ملک سے بھاگنا پڑا تو پہلے لیبیا پھر سعودی عرب نے انہیں پناہ دی۔اسی طرح فلپائن کے فرڈیننڈ مارکوس کے خلاف جب بغاوت ہوئی تو انہیں بھی بھاگنا پڑا اور امریکی مدد سے انہیں ”کہیں دور“ جا کر پناہ لینا پڑی۔ ایران کے طاقتور شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو مغرب کا چہیتا ہونے کے باوجود جب امریکہ اور مغرب نے پناہ نہ دی تو انہیں مغرب کی سرپرستی میں ”پلنے والے مصر“ میں پناہ ملی۔ دور کیوں جائیں ہمارے اپنے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم ہاؤس سے اُٹھا کر کال کوٹھری میں پھینکا اور ان کو سزائے موت سنائی گئی۔ تو سعودی عرب پھر (یاد رہے سعودی عرب نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بچانا چاہا تھا، مگر ضیا الحق نے انکار کیا اور پھانسی دیدی) آگے آیا اور ایک خصوصی طیارے میں راتوں رات نواز شریف کا خاندان اور ان کے ملازم ملک سے نکل گئے۔ نواز شریف کوایک دفعہ نہیں بلکہ ملک دو مرتبہ ملک چھوڑنا پڑا۔ 2017ء میں نااہل قرار دئیے جانے کے بعد 2018ء میں ان کو سزا سنائی گئی اور پھر 2019ء میں جب وہ جیل میں تھے تو ایک بار پھر ان کو ”غیبی مدد“ ملی اور مقتدرہ کے سربراہ جنرل باجوہ نے ان کو اس ملک سے باہر نکلنے میں مدد دی ایک ”عربی طیارہ“ لاہور ایئرپورٹ پر اترا اور نواز شریف کو لے کر لندن چلا گیا، جہاں وہ پھر چار سال مقیم رہے، ایسے انجام سے بچنا ہے تو ”عوام کے ساتھ رہیں“ عوام کی مرضی پہ چلیں، عوام سے طاقت لیں اور عوام کو طاقت دیں، عوام سے ”ووٹ کی طاقت“ مت چھینیں ورنہ وہ آپ کی طاقت اور آپ کی زندگیاں دونوں چھین لیں گے۔