توبہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل

توبہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر سجاد الٰہی
ہر انسان غلطیوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہر ذی روح سے گناہ سرزد ہوتے ہیں لیکن سچے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ گناہ کرنے کے بعد اس پر نادم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے روبرو توبہ و استغفار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے روبرو توبہ و استغفار کرنے والوں کو انتہائی پسند فرماتے ہیں اور ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
1 جب کسی شخص کا زادِراہ کسی لق و دق صحرا میں گم ہو جائے اور وہ صحرا میں اکیلا رہ جائے یہاں تک کہ موت اسے سامنے نظر آئے۔ اس وقت اگر اس کا زادِراہ اسے کسی کمی بیشی کے بغیر مل جائے تو اس شخص کی خوشی کتنی زیادہ ہوگی؟ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے روبرو اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ سے اس صحرا میں پھنسے ہوئے شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم اور ترمذی حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص کی خوشی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو کسی لق و دق صحرا میں ہو، اس کے ساتھ اس کی سواری بھی ہو جس پر اس کا زادِ راہ لدا ہوا ہو، صحرا میں وہ شخص (آرام کرنے کی غرض سے) سو جائے اور جب بیدار ہو تو اس کی سواری (اس سے دور) جا چکی ہو۔ وہ اپنی سواری کو تلاش کرے یہاں تک کہ اسے پیاس محسوس ہو (پھر وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنے آپ سے کہے) جہاں میری سواری گم ہوئی ہے میں اس جگہ جا کر سو جاتا ہوں تا کہ مجھے موت آجائے پھر وہ اپنے بازو پر اپنا سر رکھتا ہے تا کہ اسے موت آجائے (اسی اثناء میں اس کی آنکھ لگ جائے) پھر جب وہ بیدار ہو تو اس کے پاس اس کی سواری کھڑی ہو جس پر اس کا زادِ راہ لدا ہوا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جو صحرا میں اپنی گم شدہ سواری اور زادِ راہ کو پالے۔
2 اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ اتنا پسندیدہ عمل ہے کہ انہوں نے توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا رکھ چھوڑا ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا۔ حضرات ائمہ احمد اور مسلم سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔‘‘
3 اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ اتنا محبوب عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک کہ اس کی روح سارے بدن سے نکل کر اس کے حلق تک نہ پہنچ جائے۔ امام ترمذی سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس کی روح اس کے حلق تک نہ پہنچ جائے۔
4 اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ ان کا بندہ ان کے روبرو اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔ چنانچہ وہ دن اور رات دونوں وقت اپنے ہاتھ کو پھیلاتے ہیں کہ شاید کوئی توبہ کرنے والا اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی توبہ قبول فرمانے کیلئے اپنا ہاتھ اس وقت تک پھیلاتے رہیں گے جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا۔ امام مسلم، سیدنا ابوموسیٰ الاشعریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ کو رات کے وقت پھیلاتے ہیں تا کہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ کو دن کے وقت پھیلاتے ہیں تا کہ رات کی تاریکی میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا۔ ‘‘
5جو شخص اللہ تعالیٰ کے روبرو سچے دل سے توبہ کرے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، چاہے وہ گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ حضرات ائمہ بخاری اور مسلم سیدنا ابوسعید الخدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’تم سے پہلے گزرنے والی امتوں میں سے ایک امت کے شخص نے ننانوے قتل کیے پھر اس نے (توبہ کی غرض سے) زمین پر موجود سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص کے متعلق دریافت کیا، اسے ایک راہب کے متعلق بتلایا گیا، وہ شخص اس راہب کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا کہ میں نے ننانوے آدمی قتل کیے ہیں کیا میرے لیے توبہ ممکن ہے؟ اس راہب نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘ اس شخص نے اس راہب کو بھی قتل کر کے سو کی گنتی کو پورا کر دیا۔ پھر اس نے زمین پر موجود سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص کے متعلق دریافت کیا تو اسے ایک عالم کے متعلق بتایا گیا، وہ شخص اس عالم کے پاس آیا اور اس سے دریافت کیا کہ میں نے ایک صد آدمی قتل کیے ہیں، کیا میری توبہ ممکن ہے؟ اس عالم نے جواب دیا کیوں نہیں، وہ کون شخص ہے جو تم میں اور تمہاری توبہ کے درمیان حائل ہو، پس تم فلاں بستی کی طرف چلے جاؤ۔ اس بستی کے لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی (ان کے ساتھ مل کر) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو (اور یاد رکھو) واپس پلٹ کر اپنی بستی کی طرف نہ آنا۔ یہ برے لوگوں کی بستی ہے۔ وہ شخص نیک لوگوں کی بستی کی طرف روانہ ہوا، جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو موت کا فرشتہ آ پہنچا۔ پھر اس شخص کی روح لے جانے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑا کرنے لگے۔ رحمت کے فرشتے کہنے لگے: (اس شخص کی روح ہم لے جائیں گے) کیونکہ یہ شخص نیک لوگوں کی بستی کی طرف اپنے دل سے توبہ کر کے جا رہا تھا۔ عذاب کے فرشتے کہنے لگے: یہ وہ شخص ہے جس نے زندگی بھر ایک نیکی بھی نہیں کی۔ (دونوں قسم کے فرشتوں کے درمیان ابھی یہ جھگڑا جاری تھا) کہ ان کے پاس ایک فرشتہ آیا۔ تمام فرشتوں نے اس آنے والے فرشتے کو اپنے درمیان فیصل مقرر کیا۔ اس فرشتے نے کہا: دونوں بستیوں کے درمیانی فاصلے کی پیمائش کی جائے۔ جس بستی کے وہ شخص قریب ہو، اسے اسی بستی کا باشندہ شمار کیا جائے۔ جب پیمائش کی گئی تو وہ شخص نیکو کار لوگوں کی بستی کے قریب پایا گیا۔ پس اس شخص کی روح رحمت کے فرشتے لے گئے۔
6 غلطی اور گناہ ہر شخص سے سرزد ہوتا ہے لیکن اپنے گناہوں سے توبہ کرنا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرے، اسے بہترین غلطی والا کہا گیا ہے۔ امام ترمذی، سیدنا انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’آدم کا ہر بیٹا غلطی کرتا ہے اور بہترین غلطی کرنے والا وہ شخص ہے جو (اپنی غلطی سے) توبہ کرے۔‘‘
7 اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے لوگ اس قدر پسند ہیں کہ جو قوم گناہ نہیں کرتی، اللہ تعالیٰ اس قوم کے بدلے میں ایک ایسی قوم بھیجتے ہیں جو گناہ کرے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔ امام مسلم، سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم لوگ گناہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے ایک ایسی قوم بھیجیں گے جو گناہ کرے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔
8 جو شخص سچے دل کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے پھر نہ چاہنے کے باوجود اس سے وہ گناہ دوبارہ سرزد ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو دوبارہ معاف فرما دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شخص دل سے اس گناہ کا چاہنے والا نہ ہو۔ حضرات ائمہ بخاری اور مسلم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہؓ، نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(میرا) بندہ گناہ کرتا ہے پھر کہتا ہے: اے اللہ! میرے گناہ کو معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ (اس کے جواب میں) فرماتے ہیں: میرے بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے جانا کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ ہی کی وجہ سے اس کا عذاب بھی آتا ہے (بندہ تین دفعہ گناہ کرتا ہے اور تینوں مرتبہ اللہ تعالیٰ جواب میں یہی فرماتے ہیں۔ پھر جب بندہ اپنے گناہ سے بار بار سچے دل سے توبہ کرتا ہے لیکن وہ گناہ اس سے بار بار سرزد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے میرے بندے!) تو جیسا چاہے عمل کر، میں نے تجھے معاف کیا۔‘‘
9 اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہوں سے بھی اس کے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد درگزر فرماتے ہیں جس شخص کے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ چکے ہوں۔ امام ترمذیؒ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا انسؓ رسول کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے آدم کے بیٹے! تو جب تک مجھ سے دعا مانگتا رہے اور عاجزی کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا رہے، میں تیرے گناہوں کے باوجود تجھے معاف کرتا رہوں گا اور اس بات کی پروا نہ کروں گا (کہ تیرے گناہ کتنے زیادہ ہیں)۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو میں تیرے گناہوں کی پروا کیے بغیر تجھے معاف کر دوں گا۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین کے برابر غلطیوں کا ارتکاب کرے، پھر میری ملاقات کیلئے حاضر ہو اور تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں زمین کے برابر ہی تیرے گناہوں کیلئے معافی لے کر آؤں گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے روبرو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!

مزید :

ایڈیشن 1 -