ریاست و سیاست کا ایک صفحہ

  ریاست و سیاست کا ایک صفحہ
  ریاست و سیاست کا ایک صفحہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی کے خلاف پریزینٹیشنز مسترد کر دی گئیں۔ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عامر فاروق، جسٹس شفیع صدیقی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس اشتیاق ابراہیم، جسٹس شکیل، جسٹس صلاح الدین اور جسٹس گل حسن کی بطور سپریم کورٹ ججز ناموں کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے کی، جبکہ جسٹس منیب اور جسٹس منصور شاہ نے اجلاس موخر کرنے کا مطالبہ کیا جسے کمیشن کے ممبران کی اکثریت نے مسترد کر دیا۔ جسٹس منیب،جسٹس منصور، بیرسٹر گوہر علی اور علی ظفر نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی درخواست پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی بطور ایکٹنگ جج سپریم کورٹ تقرری آرٹیکل 181کے تحت کی گئی گویا عدالتی معاملات اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد تشکیل پانے والی آئینی عدالت قائم بھی ہو چکی اور فعال بھی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اپنا کام بھی کررہا ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمان کو مانتی ہی نہیں ہے لیکن اس کے تمام اجلاسوں میں اس کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ حاضری لگاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ پھر ہلہ گلہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور بائیکاٹ کر دیتے ہیں لیکن اپنی تنخواہیں ٹی اے بلز وغیرہ ضرور وصول کرتے ہیں۔ وہ 26ویں ترمیم کو نہیں مانتے حالانکہ ترمیم کے لئے قائم کردہ قائمہ کمیٹی میں پی ٹی آئی ممبران شامل تھے۔ کمیٹی کے دس میں سے نو اجلاسوں میں شریک بھی رہے۔ دسویں اجلاس میں غیر حاضر ہوئے تاکہ ترمیم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جا سکے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اس کے بعد جب آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن اور آئینی بنچ بنا تو اس کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں سب کچھ نہ ماننے کے ساتھ ساتھ تمام سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ صرف انتشار و افتراق پھیلانے کے لئے۔ پی ٹی آئی کی ساری سیاست میں نہ مانوں کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے تشکیل پائی ہے۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ء میں اسٹیبلشمنٹ کے گود لئے جانے تک،عمران خان تنقید ہی نہیں طعن و تشنیع کے گل کھلاتے رہے۔ہر بات پر تنقید، ہر ادارے پر نشتر زنی، ان کی یہی ادائیں ہماری مقتدرہ کو بھا گئیں اور انہوں نے عمران خان اور اس کی پارٹی کو گود لیا پھر 2018ء میں اسے اقتدار کے ایوانوں میں داخل کیا۔2022ء تک عمران خان اور اس کے حواریوں نے ملک کا جو حشر کیا وہ اب ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد، عمران خان اور ان کی پارٹی نے ملک میں انتشار و افتراق کی نئی تاریخ رقم کر دی۔ اسلام آباد اور لاہور پر حملہ آور ہونے کی کئی کاوشیں کی جا چکی ہیں۔ فروری 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کو کامیابی ملی ووٹ بھی ملے، پاپولر ووٹوں کو پی ٹی آئی اپنی حماقتوں اور عاقبت نا اندیشیوں کے باعث الیکٹورل ووٹوں میں تبدیل نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی اب بھی سڑکوں پر ہے۔ حکومتی کارکردگی یہ ہے کہ گزرے پارلیمانی سال کے دوران پی ٹی آئی نے جتنی دفعہ بھی انتشار پھیلانے کی کوشش کی، حکومت نے اسے بری طرح ناکام بنایا، پی ٹی آئی کی آخری بال اور آخری کال بھی ناکام ہوئی۔ پھر بشریٰ بی بی کو لانچ کرکے بھی دیکھ لیا، کچھ نہیں ہوا۔ آخری مرتبہ 8فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی ناکام نظر آیا۔ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست ناکام ہو چکی ہے۔ ریاست نے اس انتشاری ٹولے کی ہوا نکال دی ہے۔ ٹرمپ کارڈ بھی ناکام ہو چکا ہے اب خط و کتابت کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کو بات چیت کے ذریعے،مذاکرات کے ذریعے معاملات درست کرنے اور قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی پہاڑوں سے نیچے اتر بھی آئی تھی لیکن پھر نامعلوم وجوہات کے باعث مذاکراتی میز چھوڑ کر، کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ دوبارہ پہاڑوں پر چڑھ گئی۔ اب صورت حال ایسے لگ رہی ہے کہ پی ٹی آئی اپوزیشن کے مقام علیہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ احتجاج، احتجاج اور نعرے بازی کی صدائیں دیتے دیتے تھک چکی ہے۔ ریاست بڑی یکسوئی کے ساتھ ملکی و قومی تعمیر و ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔ سیاسی استحکام کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔ سفارتی محاذ پربڑی تندہی کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ چین کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ، نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ انگیجمنٹ کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ نئے امریکی صدر نے طالبان حکومت سے چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی واپسی کا جو مطالبہ کیا ہے اس سے پاکستان کی اہمیت بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ظاہر ہے جب امریکہ ایک بار پھر طالبان کے ساتھ معاملات و مذاکرات شروع کرے گا تو پاکستان ایسے ہی اہم قرار پائے گا جیسے دوہا مذاکرات میں پاکستان انتہائی اہم عنصر تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں بھی پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ تھا اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ کے اعلان کے بعد پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے ایسے میں پاکستان اگر یکسوئی اورہنرمندی کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے تو ہم فائدے حاصل کر سکیں گے۔ امریکہ ہمارا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر بھی ہے ہمارے فوجی معاملات بھی خاصی حد تک امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم جن عالمی زری و مالیاتی اداروں کے مرہونِ منت ہیں ان پر امریکی کنٹرول ہے ایسے میں ہم اگر امریکی انتظامیہ کی ترجیحی لسٹ میں آتے ہیں تو یقینا فائدے میں رہیں گے۔ ہم ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے ہیں کہ امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں یا امریکہ کو ناراض کریں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ابھرتے ہوئے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہنرمندی اور چابکدستی کا مظاہرہ ہیں۔ اس وقت حکومت و مقتدرہ یک جان و دوقالب کے طور پر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہیں، اسی میں ہم سب کی بھلائی  ہے اور اسی میں پاکستان کا مفاد پوشیدہ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -