خارجہ پالیسی:اعلیٰ ملکی مفاد

خارجہ پالیسی:اعلیٰ ملکی مفاد
 خارجہ پالیسی:اعلیٰ ملکی مفاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد علاقائی سالمیت، ملکی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ ہوتا ہے، اسی مقصد کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائم خارجہ پالیسی عالمی سطح پر وطن عزیز کاملکی مفاد اورموقف اجاگر کرنے میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعدخارجہ پالیسی ازسر نو مرتب کی جس کامرکز پاکستان کے اعلیٰ مفاد کا حصول، پُرامن ہمسائیگی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا ہے۔مربوط پالیسی کے مطابق علاقائی اور عالمی روابط کا آغاز کیا گیا اور اقتصادی استحکام کے لئے چین،ترکی اور روس جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر سفارت کاری کا عمل شروع ہوا۔دہشت کے بادل چھٹے،غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا،دفاع مضبوط اور معیشت مستحکم ہوتی، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔مسلم لیگ (ن) کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے دنیا پاکستان کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو آج مادر وطن کے اقوام عالم کی بڑی طاقتوں کے ساتھ بہترین روابط فروغ پا رہے ہیں ۔ چین اور پاکستان کی لازوال دوستی فولاد سے مضبوط ہو رہی ہے اوردونوں ممالک کے درمیان تزویراتی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ چین کی جانب سے پاکستان میں سی پیک منصوبے کے تحت مختلف شعبوں میں54ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان 64ممالک کے لئے ’’گیٹ وے‘‘ بن چکا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان، بلکہ خطے کے 3ارب سے زائد افراد کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات ایک تابناک دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ترکی جنگ اور امن دونوں صورتوں میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہاہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، کشمیر پالیسی اور نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لئے پاکستان کی حمایت دونوں ممالک کی دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کی غیر متزلزل مذمت اورترک صدر طیب اردوان اور جمہوریت کی حمایت کی۔


شاہراتی روابط اور توانائی کوریڈور کے ذریعے روس اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور روس کے تعلقات بہت پرانے ہیں، لیکن معاشی میدان میں جمود تھا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کامیاب پالیسی سے اس جمود کو توڑا اورہر شعبے میں تعلقات کوبڑھا،اسی لئے پاکستان کو اب مظفر گڑھ تھرمل پاور سٹیشن کی اپ گریڈیشن، جامشورو پاور ہاؤس میں توسیع اور اپ گریڈیشن کے علاوہ توانائی کے دیگر منصوبوں میں روس کا تعاون حاصل ہے۔دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان فوجی مشقوں کا انعقاد اہم سنگ میل ہے۔ روس نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم اور مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا معترف رہا ہے۔ وسطی ایشیا ، جنوبی ایشیا (کاسا 1000) بجلی منصوبہ بھی تمام متعلقہ ممالک اور ان کے عوام کی خوشحالی کے لئے یکساں اور باہمی طور پر سود مند ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے تاجکستان کا دورہ کیا اور کاسا 1000منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ کرغزستان سے شروع ہونے والی ٹرانسمیشن لائن تاجکستان اور افغانستان سے گزرتی ہوئی نوشہرہ کے راستے پاکستان پہنچے گی ۔ اس ٹرانسمیشن لائن کے لئے کرغزستان میں ایک اور تاجکستان میں 4ذیلی سٹیشن ہوں گے، جبکہ پاکستان 13سو میگا واٹ بجلی سے 1000،جبکہ افغانستان کو 300میگا واٹ بجلی میسر آئے گی۔ وزیراعظم کے دورۂ وسطی ایشیا سے بیلا روس اور آذر بائیجان سمیت کئی ممالک سے تعلقات میں وسعت آئی ہے۔ ماضی میں کشیدہ حالات کے باعث ایران بھارت کے کیمپ میں تھا،لیکن حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی سے ایران، پاکستان کے ساتھ روابط بڑھانے پر مجبور ہو ا ۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی درآمد کے منصوبے امریکی دباؤ کا شکار تھے، لیکن میاں نواز شریف جیسے مضبوط اعصاب کے مالک شخص نے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے اقدامات شروع کئے۔ بھارتی خفیہ ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت نے پاک ایران دوستانہ تعلقات میں زہریلے اور بے بنیاد پروپیگنڈے سے دراڑ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی بھارت کا مقدر ٹھہری۔ پاکستان کے قطر کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں، جن کو مزید مستحکم کیا جا رہا ہے۔مارچ 2015ء میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے پاکستان کا دورہ کیا ۔

ایک سال سے کم عرصے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے جوابی دورہ دونوں ممالک کے درمیان شاندار تعلقات کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں توانائی کی ٖضروریات پوری کرنے کے لئے قطر سے 2016ئسے 2031ء تک مائع گیس درآمد کر رہا ہے ۔ پاکستانیوں کے قابل تحسین کردار اور وزیراعظم کی درخواست پر امیر قطر نے پاکستان کے ہنرمند اور غیر ہنر مند افراد کو قطر میں ایک لاکھ سے زائد ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ۔


میاں نواز شریف نے خارجہ پالیسی میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ انتہائی پُرامن اور تنازع سے پاک تعلقات کا لائحہ عمل اپنایا ہوا ہے۔ویسے تو پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ پاکستان کے قیام سے ہی شروع ہو جاتی ہے، تاہم حالیہ تناظر میں پاکستان اور امریکہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اتحادی ہیں۔ اس رشتے میں کئی نشیب و فراز آئے ۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلااور 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات میں جو تعطل آیا تھا، وہ افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد بحال ہو ا،تاہم تناؤ اور بے اعتباری قائم رہی ۔2011ء میں امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ،سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کا حملہ، سانحہ ایبٹ آبادکے بعدتعلقات بدترین مرحلے میں داخل ہوئے۔ 2013ء میں میاں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں کا آغا زہوا اور عدم اعتماد کی جو فضا قائم ہو گئی تھی، اس میں بہتری کے لئے اقدامات کئے گئے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں غیر متوقع کامیابی پاکستان کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں تھی، لیکن پاکستانی خارجہ پالیسی بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ 30نومبر 2016ء کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکہ کی نئی حکومت کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ کوتہنیتی فون کیا، جس میں صدر ٹرمپ نے میاں نواز شریف کی حیران کن کارکردگی کو سراہا اور وہ دیرینہ مسائل کے حل کے لئے ہر کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ نومنتخب صدر کی اس گفتگو سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکی پالیسی وطن عزیز کے حق میں بہتر اور مثبت ہو گی۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ابھرتی ہوئی نئی صورت حال کے مطابق جی ایس پی پلس کے تحت پاکستان کو ملنے والی مراعات جاری رکھنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کی گئی جس سے یورپین مارکیٹوں میں پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔۔۔اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو سیکیورٹی کا عدم توازن واضح نظر آتا ہے، جس کی بڑی وجہ امریکہ ہے،کیونکہ امریکہ اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے خطے میں بھارتی چودھراہت کا خواہاں ہے۔ امریکہ کی شہ پر مودی سرکار پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مختلف بھونڈی حرکتوں پر اتر آئی ہے۔پاکستان پُرامن ہمسائیگی کا خواہاں ہے، لیکن بھارت پاکستان کی پُرامن بقائے باہمی کی خواہش کا مثبت جواب نہیں دے رہا ، حکومت نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر زور دیاہے، لیکن پاکستان کے ساتھ مودی سرکار کا رویہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے، وہ اپنی شرائط پر تعلقات چاہتا ہے۔


پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہر فورم پر مذاکرات کی بات کی ہے، لیکن بھارت نے ہر بار راہ فرار اختیارکیا۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کر کے ہماری اچھی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔8جولائی 2016ء کو مقبوضہ وادی میں برہان وانی کی شہادت کے نتیجے میں انتفادہ کی تحریک کو دہشت گردی کا رنگ دے کر کشمیریوں پر ظلم، وحشت اور تشدد کے پہاڑ توڑ رہا ہے، لیکن میاں نواز شریف نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔کامیاب ترین خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کے باعث مسئلہ کشمیر اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکہ،ایران سمیت مختلف ممالک اور عالمی رہنماؤں کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔۔۔اگر پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کو دیکھا جائے توافغانستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور امن مصالحت کے عمل میں واضح پیش رفت نہ ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات حالیہ مہینوں میں کشیدہ ہوئے ہیں۔ا شرف غنی کے افغانستان کے صدر بننے کے بعد نواز شریف نے اپنے پہلے دورۂ کابل میں واضح طور پر کہا: ’’افغانستان کا دشمن پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا، جبکہ اشرف غنی نے بھی ردعمل میں کہا کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن ہے‘‘۔ افغانستان میں خانہ جنگی میں حالیہ شدت آنے سے پاکستان کوبھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ افغان صدر اشرف غنی کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ پاکستان طالبان کی مدد کر رہا ہے، حالانکہ پاکستا ن افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے لئے دو اجلاس منعقد کروا چکا ہے، لیکن 21مئی 2016ء کو ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔پُرامن افغانستان ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے ۔ حکومت پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا انعقاد کیا ،حال ہی میں افغانستان کے لئے ماسکو میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں افغانستان کو شریک کرنے پر اصرار کیا۔

مزید :

کالم -