”اگوں کھوتی سانبھ لئے گی“

”اگوں کھوتی سانبھ لئے گی“
 ”اگوں کھوتی سانبھ لئے گی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مزمل سہروردی کا فون آیا، بولا سنا ہے تجھے پی ٹی وی سے نکال دیا،میں نے کہاالحمد اللہ نہایت عزت و احترام کے ساتھ اور اس میں کوئی بھل چک لیں دین وی نہیں۔پھر بولا حیرت ہے اب تو رانڑوں  کی حکومت ہے میں نے کہا مونچھوں والے رانٹرون کی ہے کلین شیو کی نہیں۔ہماری حکومت پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گی۔کہنے لگا اب کیا ارادے ہیں میں بولا ورلڈ ٹوور پر جا رہا ہوں شہر شہر گلی گلی بتیاں دیکھوں گا،تاڑیاں ماروں گا۔واپسی پر ارادہ ہے کہ ایک آئل ریفائنری خریدوں گا اور بزنس کروں گا۔مزمل میری چول پہ ہنسا اپنی وکھیوں پہ ہاتھ رکھا کر بولا اتنی دولت کہاں سے آگئی؟۔میں نے کہا کہ مریم اورنگزیب نے دو ہزار روپے بھیجے ہیں پی ٹی وی سے ”لت وج“گئی تو کیا ہوا دو ہزار روپوں سے زندگی ”میں تے میرا دلبر جانی بلیاں تے پیار کہانی“گا رہی ہے۔مریم اورنگزیب نے جس طرح مجھ سے پھٹکار مارے غریب عوام کے لئے”ریشمی رومال کے اْتے دوہزار کا نام کڈیا“ہے خوشی کے مارے میری تو چیخیں نکل گئی ہیں۔

سنتا سنگھ کا بچہ رو رہا تھا وہ اسے لوری سنانے لگا ہمسائے میں سے کسی نے وٹس اپ پہ میسج کیا تیری مہربانی”کاکے نوں رو لین دیتوں چپ کر جا“ اب حد ادب کا تقاضہ ہے ہم مریم بی بی کو یہ کہہ نہیں سکتے کہ باجی قوم کو رو لینے دیں۔ویسے وزارت اطلاعات ہوتی ہی رولے رپے کے لئے ہے۔کامنی کوشل کسی دور میں رولا رپا گرل بہت مشہو رہوئی تھیں۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ان دو ہزار کو کہاں چھپاؤں۔بیٹا بولا کچن میں رکھ دیں وہاں نہ آٹا ہے،چینی ہے نہ گھی بہت جگہ۔اب تو کچن کے چوہے بھی باں باں کرتے بابے بوٹے کی طرح گالاں کڈتے،گھوریاں پاتے بھوکے بٹیروں کی طرح کہیں اور روانہ ہو چکے۔بیٹی بولی پا پا جی انہیں واش روم میں چھپا دیں میں بولا آج کل واش روم کی ”اسیسریز“ویسے ہی بہت مہنگی ہیں۔اب تو ما شاء اللہ ہمارے ”دیساں دے راجے تے“آصف زرداری،میاں جی کے پیارے راجہ ریاض ہی مان نئیں۔یہ میرا واش روم ہے سندھ ہاؤس نہیں۔ خیر اب ہم آدھے گھر والے  سوتے ہیں اور آدھے دوہزار کی حفاظت کے لئے جاگتے ہیں۔


بجٹ کے بعد خود اپوزیشن سنیٹر کو سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت نے ”کی چکر پایا اے“ ورنہ وہ اس گیم کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیتے۔ماشاء اللہ عمران خان کی باغی،ماٹھی نہلی حکومت کے بعد پوری دنیا نے جس طرح ہمارا سواگت کیا فخر سے میری آنکھیں جھک گئیں۔شاہ سلمان سے لے کر طیب اردگان نے جس طرح سرکاری وفد کے سامنے ”ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی“گاتے ہوئے ”پکھیاں جھلی“ ہیں اس سے یقین ہو گیا کہ واقعی وہ ہمارے حقیقی دوست ہیں۔ویسے بھی ہم کونسا وہاں بھیک مانگنے گئے تھے ہم تو قوم کے لئے خیرات لینے گئے تھے۔لہذٰا ”دے جا سخییا“کہنے گئے تھے اور مولا خوش رکھے ”فیر اسی نا ں سمجھئیے“کہتے واپس آگئے۔لڑکی بنتا سنگھ کو بولی وڑ ہ بھانڈے چ میں تجھے بلاک کر رہی ہوں بنتا سنگھ بولاجا جا اپنی شکل گم کر تیری جیسی روزانہ دس لڑکیاں مجھے بلاک کرتی ہیں۔لہذٰا جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے تو ان جیسے دسیوں روزانہ ہمیں انکار کرتے ہیں۔


ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ دیوالیہ پن کی طرف جا رہے ہیں۔لیکن ہے کوئی جو اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا حل تلاش کرے۔خالی میثاق معیشت کہنے سے مسئلہ کب حل ہو گا؟۔ 1954ء کے بعد ہم قرضوں کے دلدل میں پھنستے اور پھر گٹے گوڈے،دھنّی سے ہوتے ہوئے آج نکوں نک پھنس چکے۔بھوکی قوم کے نام پر قرضے لینے والے کھربوں پتی ہو گئے۔ان کے بچے آنے والی نسلیں تر گئیں قوم افلاس کے کنویں میں وڑتی چلی گئی۔مائیں بچوں کو لے کر خود کشیاں کرنے لگیں،باپ دو وقت کی روٹی کے حصول میں زندگیاں داؤ پر لگا تے رہے اور حکمران مفتاح اسماعیل کی طرح پٹرول بڑھانے کا عندیہ دیتے ہوئے قہقہے لگاتے رہے اور مہربان اپنے ہاتھوں میں مصلحت کی ”اسٹکس“تھامے اپنی مستی میں سرشار رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اور کتنا انتظار اور کتنا صبر؟۔”اوتہانوں لوے مولا“آپ کا ”ڈھڈ“بھرتا ہی نہیں۔یورپ،امریکہ،برطانیہ،دبئی کہاں کہاں کاروبار کے نام پر پیسہ کھپاؤ گے کھاتے کھاتے مر جاؤ گے۔ مجھ جیسے قلم مراثی،تمہارے لئے ”مولا خوش رکھے“ جیوے جیوے آوے آوے پکارتے رہیں گے ہم اپنی پْٹھ کی بوٹی کے لئے قوم کا بکرا ذبح کراتے رہیں گے۔ہے کوئی جس نے آج تک آنے والے چیلنجز کو مد نظر رکھ کر پالیسی بنائی ہو۔سنتا سنگھ کھوتی پر منہ دوسری طرف کر ے بیٹھا جا رہا تھا۔کسی نے پوچھا سنتا جی منہ پیچھے کیوں؟۔بولا تا کہ کوئی پچھوں حملہ نہ کر دے،بندہ بولا اور اگر کسی نے سامنے سے حملہ کر دیا۔سنتا سنگھ گردن اکڑا کر بولا ”اگوں کھوتی آپ سانبھ لئے گی“بہنو تے بھراؤ،کاکے تے کاکیوں آخر کب تک کھوتی پہ ٹرسٹ کرو گے۔خدارا منہ سیدھا کر لو اب بھی وقت ہے

مزید :

رائے -کالم -