قبائلی علاقوں کا اصلاحاتی پروگرام
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے پاکستان کا وہ حصہ ہیں، جن میں عوام 21ویں صدی میں بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اس محرومی کی بڑی وجہ انگریزوں کا بناہوا قانون ہے۔ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ 7قبائلی ایجنسیوں اور 6متصل فرنٹیئر ریجنز کو ڈیڑھ سوسال پرانے ایسٹ انڈیا کمپنی کے وائسرائے لارڈ کرزن کے تشکیل کردہ قوانین کے مطابق چلایا گیا۔فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے ضابطوں میں داد فریاد کا نظام نہ ہونے سے قبائلی عوام جرگے اور پولیٹیکل ایجنٹوں (گارڈ فاردز) کے رحم وکرم پرتھے۔ سٹیٹس کو کی جانب سے قبائل کو صحت و تعلیم کی سہولتیں فراہم کی گئیں نہ علاقے کی ترقی کے لئے کارخانے اور فیکٹریاں لگائی گئیں، جس سے روزگار کے مواقع معدوم ہو گئے اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا۔ جس نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو قبائلی علاقوں میں قدم جمانے اور جال پھیلانے کا جواز فراہم کیا۔بنیادی قانونی اور آئینی حقوق سے محروم قبائلی ایجنسیاں دہشتگردوں کی نرسریاں بن گئیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہوا، یہاں تک کہ پورے ملک کا امن و امان داؤ پر لگ گیا۔
یوں توفاٹااصلاحات کی کہانی 2008ء سے سننے میں آرہی تھی، لیکن اس حوالے سے ماضی کے حکمرانوں نے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ جون 2014ء میں وفاقی حکومت کی ہدایت پر فاٹا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔ کامیاب آپریشن کے نتیجے میں امن قائم ہوااور زندگی کی رونقیں بحال ہوئیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قبائل کو آئینی حقوق دینے کا فیصلہ کیاتاکہ سالہا سال کی محرومیوں کا ازالہ کیا جاسکے ۔ اس مقصد کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2نومبر 2015ء کو6رکنی فاٹا اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی ۔تاریخ میں پہلی بار قبائلی عوام کو حقوق دینے کے لئے سنجیدہ کوشش نظر آئی۔ با اختیار لیکن مختصر کمیٹی نے اپنا قیمتی وقت اصلاحات پر صرف کیا۔ کمیٹی نے 7قبائلی ایجنسیوں کے دورے کئے اور6فرنٹیئر ریجنز کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ دوروں کے دوران 3500 قبائلی عمائدین اور مشران کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں، وکلا، تاجر، نوجوانوں او ر سول سوسائٹی کے نمائندوں سے مشاورت کی گئی۔فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی غرض سے قانونی و آئینی سفارشات مرتب کی گئیں ۔ 23 اگست 2016ء کو وزیراعظم کو اصلاحات اور سفارشات کی پہلی رپورٹ پیش کی گئی، اصلاحات کمیٹی نے اپنی سفارشات 9 ستمبر 2016 ء کو قومی اسمبلی جب کہ 27 نومبر کو سینیٹ کے سامنے پیش کیں، سینیٹ کے اراکین نے ایک، دو معاملات پر اعتراض اٹھا کر اس پر ایک کمیٹی بنائی۔بعدازاں اصلاحات کمیٹی نے سفارشات میں ترمیم کرکے رپورٹ 15 دسمبر 2016ء کو وزیراعظم کو بھجوائی۔ 2مارچ 2017 کو وفاقی کابینہ نے نظر ثانی شدہ سمری کا جائزہ لیا اور فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات کی اصولی منظوری دی۔
سفارشات کے ڈرافٹ کے مطابق دنیا میں پاکستان کے سوا کوئی ایسا ملک نہیں،جہاں دو مختلف قانون نافذ ہوں، اس کے لئے ضروری تھا کہ پورے ملک کے لئے ایک ہی قانون رائج کیا جائے جو قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی تھا، کمیٹی نے فاٹا کو 5سال کے اندر خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش کی ہے، تاکہ فاٹا کا شمار پاکستان کے بندو بستی علاقوں میں ہوجائے۔ بنیادی حقوق سے محروم قبائل کئی دہائیوں سے انگریزوں کے ’’ظالمانہ‘‘ قانون ایف سی آرکا شکار تھے، جس نے ان سے اپیل، وکیل اور دلیل کا حق چھین رکھا تھا، مالیاتی، انتظامی اور عدالتی امور گریڈ 18 کے پولیٹیکل ایجنٹ کو حاصل تھے۔ایف سی آر کو منسوخ کر کے رواج ایکٹ لاگو کیا جائے گا۔ گریڈ 22 کے چیف آپریٹنگ آفیسر کی نگرانی میں فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی اے) کی ازسر نو تشکیل کی جائے گی، اصلاحات کے تحت فاٹا ڈویلپمنٹ کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے چیئرمین گورنر کے پی کے ہوں گے۔فاٹا میں تمام عہدوں کو اپ گریڈکر کے خیبر پختونخوا کے برابر لایا جائے گا،قبائلی علاقوں میں ملازمت کرنے والوں کی دیگر ملازمین سے تنخواہیں اور مراعات 20 فیصد زیادہ ہوں گی،فاٹا کے عوا م بھی بیت المال اور بی آئی ایس پی سے مستفید ہوں سکیں گے، علاقے سے فوجی انخلا کے لئے لیویز میں 20ہزار مقامی افراد بھرتی کئے جائیں گے۔
قبائل کو ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کے لئے پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، شرعی عدالتیں بھی ہوں گی۔ قبائل نے گزشتہ 30 برسوں میں جنگ اور بحران کے سوا کچھ نہیں دیکھا، پاکستان میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے انہیں اپنے گھر وں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس وقتفاٹا کی تقریباً آدھی آبادی در بدر ہے، ان کی آباد کاری اورواپسی کا عمل رواں برس 30 اپریل تک مکمل کیا جائے گا۔مالی معاملات کے حوالے سے بات کی جائے توفاٹا کو قومی مالیاتی ادارے (این ایف سی) سے 3 فیصد وسائل ملیں گے، یہ موجودہ سالانہ پی ایس ڈی پی فنڈ ز 21ارب روپے سے الگ ہوں گے۔ ملک کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کے برابر لانے کے لئے فاٹا کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے منسلک کرنا یقینی بنایا جائے گا، رقوم کی بروقت اور آسان منتقلی کے لئے بینکنگ نظام کو بہتر کیاجائے گا، اس کے لئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو زیادہ سے زیادہ برانچیں کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر کرپشن کے خاتمے کے لئے فاٹا میں برآمدات اور درآمدات کے لئے پرمٹ اور راہداری سسٹم پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ فاٹا کی قومی اسمبلی میں 12اور سینٹ میں 8نشستیں ہیں، لیکن قبائل کو صوبائی حلقوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی عوام آئندہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں اپنے نمائندے منتخب کر سکیں گے۔نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے لئے ملک میں 2018ء کے عام انتخابات کے بعد فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہو گا۔
فاٹا کے عوام کو بہتر معیار زندگی اور بنیادی سہولتیں دہلیز پر پہنچانے کے لئے 10سالہ ترقیاتی پروگرام ترتیب دینے کی سفارش کی گئی ہے، جس میں صحت، تعلیم ، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، نہری اور معدنی ترقیاتی منصوبے شامل ہوں گے ۔ترقیاتی پروگرام سے نہ صرف قبائلیوں کا احساس محرومی ختم ہوگا، بلکہ فاٹا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے شہریوں جیسی سہولتوں اور خدمات کی فراہمی بھی یقینی ہو گی۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کا لجز کا قیام، ووکیشنل ٹریننگ سکولز اور صنعتی زونز کی تعمیر اس ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہوں گے۔ ملک بھر میں تعلیم اور صحت کے اداروں میں فاٹا کے طلبا کا کوٹہ بڑھانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
ملک کی سیاسی جماعتوں نے جہاں فاٹا اصلاحات کے فیصلے کی ستائش کی، وہیں قبائلی عوام نے بھی اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔70سال بعد قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہونے اور قومی دھارے میں شامل کئے جانے کی خوشی میں پشاور میں مقیم قبائلی طلبہ اور فاٹا کے باشندوں نے سڑکوں پر نکل کر خوشی کا اظہار کیا اور ڈھول کی تھاپ پر روایتی قبائلی رقص ’’اتنڑ‘‘ پیش کیا اور بھنگڑے ڈالے۔’’سٹیٹس کو‘‘ سے دلبرداشتہ اور اکتائے ہوئے قبائلیوں نے ’’الوداع الوداع ایف سی آر الوداع‘‘، ’’مضبوط قبائل، مضبوط پاکستان‘‘ کے نعرے لگائے گئے اور میٹھائیاں تقسیم کیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے جو عہد کیا گیا ہے، اس پر موثر اور بروقت عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ عوام کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ قبائل کی قربانیوں کا احساس کرتے ہوئے ان کی آباد کاری میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ضرب عضب کے نتائج عالمی امن پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس موقع پر اقوام عالم کو بھی چاہیے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے دہشت گردوں کی نرسریاں ختم کرنے کے لئے جان و مال کی قربانی دی ہے ان کی آباد کاری میں حصہ ڈالیں۔