”آزادی نہیں …… حقوق چاہئیں“

8مارچ کا دن تھا۔میں دفتر میں پیشہ ورانہ ذِمّہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف تھا۔یکدم میرے کانوں سے نسوانی آوازمیں نعروں کی گونج ٹکرائی۔ نعرے کچھ اس طرح تھے۔”نعرہِئ تکبیر۔اللہ اکبر“۔’’محفوظ عورت۔محفوظ خاندان۔مضبوط معاشرہ“۔میں نے کھڑکی سے پردہ سرکا کے نیچے سڑک کی جانب دیکھا توعبایا اور تکونہ گُلوبندپہنے خواتین کی ایک کثیر تعداد صفیں بنائے،پلے کارڈ اُٹھائے، نعرے لگاتے شملہ پہاڑی سے چیئرنگ کراس کی طرف رواں دواں تھی۔اُن کے آگے آگے کچھ مرداور حفاظتی اداروں کے لوگ تھے۔عبایا اور تکونہ گُلوبندپہنے خواتین کاپُروقار ایسا مارچ میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔میں نے پَردے کو اس کی جگہ پر کیا اور اپنے کام میں مگن ہو گیا۔جب سہ پہر کے تین بجے تو پھرسے میرے کانوں سے نسوانی آوازوں کی گونج ٹکرائی۔ اس بار آواز کی بلندی اور نعروں کی نوعیت یکسر مختلف تھی۔ڈھول کی تھاپ پر اُچھل کود کرتے کچھ نوجوان لڑکے خواتین کے گروہوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔اکثر خواتین ”ترقی یافتہ“لباس میں ملبوس تھیں اور اپنے بالوں کوالوداع ہوتے موسمِ سرما کی بھرپور تمازت میّسر کر رہی تھیں۔انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز بلند کر رکھے تھے۔جن پر اُن کی زبان سے بلند ہوتے نعروں کی طرح کے نعرے درج تھے، جیسے،”عورت کیا مانگے۔آزادی۔
ہم لے کے رہیں گے۔آزادی۔ہم چھین کے رہیں گے۔آزادی“ وغیرہ۔ پردے کو اُس کی جگہ پر درست کر کے ایک بار پھرمیں اپنے کام کی طرف پلٹ آیا،مگر اب میری سوچوں میں ایک الجھن پیدا ہو چکی تھی۔جس کے باعث میں کام پرپوری توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔
دونوں جلوسوں کی ہیئت اور نعرے میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ صبح والے جلوس میں شامل خواتین اپنا حق مانگ رہی تھیں توسہ پہر والے جلوس میں شامل خواتین بھی اپنے حقوق کی طلبی کے لئے نعرہ زَن تھیں۔مگر دونوں کے اندازِ طلب اور منزلِ طلب میں واضح فرق تھا۔قبل اَز دوپہر کے جلوس میں شامل خواتین اسلام میں دیئے گئے حقوق کی طلب گار تھیں،جبکہ بعد اَز دوپہر برپا ہونے والے جلوس کی معزز خواتین آزادی، آزادی کا راگ اَلاپ رہی تھیں۔
ایک نظریاتی ملک کا باشندہ ہونے کے ناطے وطنِ عزیز میں خواتین کو کبھی مذہب کے نام پر،کبھی معاشرتی اقداراور رواجات کے نام پر،کبھی صنف ِ نازک و عقلِ ناقص قرار دے کرمختلف پابندیوں سے گزارا جاتا ہے،ہر ذی شعورشخص حقوقِ نسواں کی ادائیگی پر یقین رکھتا ہے اور اعترافِ حقوقِ نسواں کے تناظر میں قوانین کی ایک خاطر خواہ تعداد بھی موجود ہے،مگر ان قوانین کی عملداری کے راستے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین خودبہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
یورپ میں خواتین کے حقوق کی تاریخ گھٹا ٹوپ سیاہی سے عبارت ہے۔ صدیوں پر محیط کاوشوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں، بیسویں صدی میں آکر اُنہیں انسان سمجھاجانے لگا۔لیکن تاحال ان کی عمومی حالت اور مقام مرد سے کم تَر ہے۔وہاں نسوانیت کی مختلف تحریکوں نے جنم لیا۔جن کے مطالبات برابری کے مقام کے تعین سے نکل کر جنسِ مخالف کے لئے للکار بن کر ابھرے۔حق ِ حصولِ تعلیم،حق ِ جائیداد اور حق ِ رائے دہی سے بڑھ کر اُن کے مطالبات لباس سے آزادی،جنسی تعلقات میں آزادی،حمل کے رکھنے یا گرانے میں آزادی،شب وروزحسبِ منشا بتانے کی آزادی تک آگئے۔جس کے نتیجہ میں ان معاشروں نے جنسی تلَذُّذکو بتدریج صنعت کا نام دے دیااور اس کی کمائی قومی خزانے کا ناگزیرحصہ ٹھہرا۔اس”آزادی کے ثَمر“سے بہرہ مند شاید ہی کوئی مرد یا خاتون ایسی ہو جس نے اپنی زندگی میں کسی ایک اَزدواجی تعلق پر اِکتِفا کیا ہو۔
حقوق مانگنے اور آزادی طلب کرنے میں بہت گہرا فرق ہے۔ ابلاغ کی سرعت انگیز ترقی کے باعث جہاں کسی ایک علاقہ کے رسم و رواج اور بودوباش کی آگاہی دوسرے علاقوں تک پہنچی ہے،وہاں مذہبی، معاشرتی،سیاسی و دینی فلسفوں کی ترسیل بھی آسانی سے ہوئی ہے۔حقوقِ نِسواں پر مبنی تنظیموں کے ”آزادی پرور“ نعرے یورپ سے نکل کر چہار دانگ ِ عالم پہنچے ہیں۔پاکستان انہی میں سے ایک عالم ہے۔ جہاں جاہ پسندخواتین نے معصوم ذہنوں کو ساتھ ملا کر،اپنی خود نُمائی اورطاقت میں مزید اضافے کے لئے ان نعروں کو اپنایا ہے۔
جیسے ہر موسم میں اور ہر مقام پر ایک سا لباس زیبِ تَن کرنا ممکن نہیں ہے۔اسی طرح مختلف معاشروں میں یکساں نوعیت کی آزادی و قیود کا تعین و اطلاق بھی ممکن نہیں ہے۔حقوق وفرائض کے تعلق کا تصوّر ہر معاشرے میں جُدا جُدا ہے۔ہمارے معاشرہ میں خواتین کا سڑکوں پر طلب ِ آزادی کے نعرے لگانا اُن کے اپنے ساتھ سَر اسَر مذاق ہے۔ جتنے بھی مارچ کر لئے جائیں،نعرے لگا لیے جائیں،موج مستی کے مواقع کے خواہاں جوانوں اور دانشوروں کی معاونت حاصل کر لی جائے، کم از کم اس صدی میں تومغربی ڈگرپر آزادی کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر بے لباس ہونا اتنے بڑے اعزاز کی بات ہوتی تو بھارت میں خواتین عبایا کے تقدس کی خاطر تیسرے درجے کاجبر برداشت نہ کر رہی ہوتیں۔ البتہ 8مارچ تو کیا،سال کی دیگر تاریخوں اور مہینوں میں بھی جائیداد میں حِصّہ کے حق، حصولِ تعلیم کے حق، مہرکے تعین کے حق اور شادی میں مشاورت کے حق کی بار آوری کے لئے جلوس نکالے جائیں تو معاشرے کے ہر طبقہئ فکر کے لوگ ان جلوسوں کا بخوشی حِصّہ بنتے جائیں گے، اور زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ ہم ان حقوق کو عملی جامہ پہنے دیکھ سکیں گے۔ آج خواتین حقوق مانگنے کی بجائے ماں باپ،بھائیوں اورشوہروں سے حصولِ آزادی کے لئے مظاہرے کر رہی ہیں۔ ایسے مظاہرے خواتین کے بارے میں مثبت روّیوں کے پنپنے کی بجائے اختلافات کو مزید ہوا دیتے ہیں۔
اگرہمیں آزادی کا ہی نعرہ لگانا ہے،تو آئیے جبر و ظلم سے آزادی کا نعرہ لگائیں،جس سے متاثر صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہیں۔ طاقت ور مرد ہو یا عورت، دونوں اپنے زیرِ دست کا استحصال کیے ہوئے ہیں۔کتنے مرد خواتین کی رعیت ہیں اور ایڑیاں رَگڑ رَگڑ کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔کتنی عورتیں،عورتوں کے زیرِ دست ہیں،مگر یہ طاقتور عورتیں ان کے ساتھ اپنے کُتوں سے بھی بدتر سلوک کرتی ہیں۔اگر آزادی کے لئے جلوس نکالنے ہیں تو مرد و خواتین باہم مل کرایسے جبر،ظلم اورناانصافی کے خلاف نکالیں۔ کتنا اچھا ہو کہ آنے والے سال،8مارچ کو خواتین و حضرات،ایک ساتھ،پُروقار مارچ کرتے نظر آئیں۔ان کے ہاتھوں میں پکڑے گئے بینرز پر لکھا ہو، ہمیں ”آزادی نہیں حقوق چاہئیں“۔