پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ
لفظ بدعنوانی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کام جو غیر منصفانہ طریقے سے کیا گیا ہو۔ بدعنوانی کو غیر قانونی رشوت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جو کسی کے لیے کچھ کام کرنے کے لیے وصول کی جاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں جہاں ہر چیز یا کوئی بھی عمل غیر منصفانہ طریقے سے کیا جاتا ہے وہاں کرپشن ایک لعنت بن جاتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ معاشرے کے تانے بانے کو کھا جاتا ہے۔
بدعنوانی اپنے وسیع معنوں میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ صرف ڈگری کا فرق رہ گیا ہے۔ بادشاہتوں میں معاملات کو انجام دینے کے لیے بادشاہ کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر محکمہ کا سربراہ انصاف نہ کرے تو پورا محکمہ کرپشن میں ملوث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت انسان کو بگاڑ دیتی ہے۔جب بھی انسان کو کچھ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے جس کی دوسرے آدمیوں کو ضرورت ہوتی ہے تو کرنے والا اس سے کچھ فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب تک یہ فائدہ سماجی قوانین اور اخلاقی ضابطوں سے مطابقت رکھتا ہے، یہ سب ٹھیک ہے۔ اس سے آگے یہ کرپشن بن جاتی ہے۔ کرپشن بھی چاپلوسی سے پروان چڑھتی ہے۔
آج پاکستان کی حالت بہت خراب ہے۔ قومی سرگرمی کے ہر شعبے پر کرپشن کا جن راج کر رہا ہے۔ غیر منصفانہ طرز عمل اس قدر پھیل چکا ہے کہ ایک عام آدمی مایوسی کا شکار ہے۔ اپنی نفرت میں وہ کہتے ہیں کہ کرپشن ایک لعنت ہے۔ اس نے ہمارا ذہنی سکون چھین لیا ہے۔
سرکاری دفاتر کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پولیس، ریلوے اور ٹرانسپورٹ وہ محکمے ہیں، جوعوام کے خادم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن آپ ان میں سے کسی بھی محکمے میں غیر قانونی رقم خرچ کیے بغیر معمولی کارروائی کی توقع نہیں کر سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ کاغذ صرف اس وقت حرکت کرتا ہے جب اس پر کچھ چاندی کا وزن ڈالا جائے۔ کئی ایسے محکمے ہیں جہاں کرپشن زندگی کا معمول بن چکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ جب تک رجحان کو چیک نہیں کیا جائے گا، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ خوشحالی اور خود انحصاری کا ہدف حاصل نہیں کر سکتا.
اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اس موقع پر اٹھے اور ایسی قوتوں کو ختم کرنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک جرات مندانہ قدم اٹھائے، اس سے پہلے کہ ہمارے لیے بہت دیر ہوجائے۔ یہ ایک اچھے معاشرے کے تمام افراد کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس مسئلے کا طویل مدتی حل ایک مضبوط قومی کردار کی تعمیر میں مضمر ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں پورے نظام تعلیم کو بدل دینا چاہیے۔
ہمیں اپنی تعلیم کو اخلاقیات اور حب الوطنی پر مبنی بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے ابلاغ کے تمام ذرائع یعنی پریس، مطبوعات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا ہو گا جہاں ایمانداری کی تعریف کی جائے اور انعام دیا جائے۔ یہ کچھ ایسے اقدامات ہیں جو مؤثر طریقے سے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارےکا متفق ہونا ضروری نہیں