امریکہ میں مسلم مخالف نفرت انگیزی میں اضافہ، چشم کشا رپورٹ سامنے آگئی

واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایک ایڈوکیسی گروپ نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف امتیازی سلوک اور حملے 2024 میں ایک نئے ریکارڈ پر پہنچ گئے، جس کی بڑی وجہ اسرائیل غزہ جنگ بنی۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے رپورٹ میں بتایا کہ 2024 میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف 8658 شکایات درج ہوئیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 7.4 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ تعداد 1996 میں تنظیم کے ڈیٹا مرتب کرنے کے آغاز سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ شکایات ملازمت میں امتیاز سے متعلق تھیں، جو کل واقعات کا 15.4 فیصد بنیں۔ اس کے بعد امیگریشن اور پناہ گزینی سے متعلق 14.8 فیصد، تعلیم کے بارے میں 9.8 فیصد اور نفرت انگیز جرائم 7.5 فیصد درج کیے گئے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق حقوق کے کارکنوں نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے اور اس کے جواب میں اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے بعد اسلاموفوبیا، عرب مخالف تعصب اور یہود دشمنی میں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ سی اے آئی آر نے کہا " امریکہ کی حمایت یافتہ غزہ میں نسل کشی نے امریکہ میں اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔"
گزشتہ ماہ ایک شخص کو 6 سالہ فلسطینی نژاد امریکی بچے کو چاقو کے وار سے قتل کرنے پر نفرت انگیز جرم میں مجرم قرار دیا گیا۔ دیگر سنگین واقعات میں ٹیکساس میں 3 سالہ فلسطینی امریکی لڑکی کو پانی میں ڈبونے کی کوشش، فلسطینی نژاد امریکی شخص پر چاقو سے حملہ، نیویارک میں ایک مسلمان پر تشدد اور فلوریڈا میں دو اسرائیلی زائرین پر فائرنگ شامل ہیں۔
سی اے آئی آر نے یونیورسٹی کیمپسز میں فلسطین کے حامی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بھی روشنی ڈالی۔ مہینوں سے مظاہرین امریکہ کی اسرائیل کے لیے حمایت ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سنہ 2024 کے موسم گرما میں کلاسز منسوخ ہوئیں، یونیورسٹی کے عہدیدار مستعفی ہوئے، اور درجنوں طلبہ معطل یا گرفتار کیے گئے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس نے فلسطین کے حامی مظاہرین کو تشدد سے گرفتار کیا، جبکہ کیلیفورنیا یونیورسٹی، لاس اینجلس میں ایک ہجوم نے فلسطینی حامی مظاہرین پر حملہ کر دیا۔
فلسطینی گریجویٹ طالب علم محمود خلیل، جو کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حامی مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان ثالثی کر رہے تھے، کو رواں ہفتے امیگریشن حکام نے گرفتار کر لیا، حالانکہ ان کے پاس گرین کارڈ ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا "یہ پہلی گرفتاری ہے، مزید ہوں گی۔"
سی اے آئی آر نیویارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عفاف ناصر نے اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے "انتہائی خطرناک نظیر" قرار دیا اور کہا کہ "یہ تمام شہری آزادیوں کے لیے خطرہ ہے۔"