منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالہ معاونت کیخلاف قوانین سخت کر رہے ہیں
واشنگٹن (اظہرزمان ، بیوروچیف ) امریکی حکومت اپنے ملک کے اندر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کے خلاف قوانین کوسخت بنارہی ہے اور اس کے عالمی نفاذ کو بہتر بنانے کے لئے ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ امریکی مالیاتی پالیسی کی یہ وضاحت وفاقی وزیر خزانہ جیکب لیو نے ’’فارن پالیسی‘‘ کے تازہ شمارے میں امریکہ اور عالمی معیشت کے موضوع پر اپنے خصوصی مضمون میں کی ہے۔ یہ مضمون ایک ایسے موقع پر شائع ہوا ہے جب روس ، چین، برطانیہ، آئس لینڈ اورپاکستان سمیت دنیا بھر میں سرکاری حکام اور سرمایہ داروں کے بارے میں ’’پانامہ پیپرز‘‘ کے یہ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ انہوں نے آف شورکمپنیوں میں اپنی دولت چھپا رکھی ہے۔ ابھی تک اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ ہالی ووڈ کے معروف پروڈیوسر اور مخیر سرمایہ دار ڈیوڈ گیفن کے سوا کسی اور نامور امریکی سیاست دان یا سرمایہ دار کا نام ان پیپرز میں نہیں آیا۔ اس سوال کا جواب انکشاف کرنے والی صحافتی تنظیم ’’آئی سی آئی جے‘‘ کی ڈپٹی ڈائریکٹر مارینا گیووارا نے دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کا بھی ان ’’آف شور ‘‘ کمپنیوں میں بہت حصہ ہے لیکن وہ بنیادی طورپرپرائیویٹ شہری ہیں جو نسبتاً غیر معروف ہیں۔ امریکی وزیرخزانہ نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ امریکہ دراصل دہشت گردوں کی فنانسنگ ، کرپشن اور منی لانڈرنگ سمیت ہرقسم کے مالیاتی جرائم کی روک تھام کے لئے اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع کررہا ہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے دسمبر 2015ء میں پہلی مرتبہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے خزانہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں خاص طورپر داعش کے علاوہ دیگر دہشت گردوں کی فنانسنگ کو روکنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط اور مربوط بنانے کے لئے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ وزیرخزانہ جیکب لیومزید لکھتے ہیں کہ نومبر 2015ء میں ترکی میں ہونے والے ’’جی ٹونٹی ‘، سربراہی اجلاس میں صدر اوبامہ سمیت عالمی لیڈروں نے آئی ایم ایف میں اہم اصلاحات کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کے بعد اس سال فروری میں امریکی کانگریس نے اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کردی تھی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمی سطح پر 2007ء میں جو مالیاتی بحران پیدا ہوا تھااس کا اعادہ اس لئے نہیں ہوا کیونکہ آئی ایم ایف اور ’’جی ٹونٹی ‘‘ کے تحت امریکہ اور دیگر ممالک نے ایک مربوط اقتصادی تعاون کی پالیسی پر عمل کیاتھا۔ امریکی وزیرخزانہ نے امریکہ کی اقتصادی صورت حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایک کروڑ 40لاکھ نئے روزگار پیداہوئے ہیں اور بیروزگار افرادکی شرح 4.9کی نچلی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ 2009ء سے 2015ء تک بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے دس فیصد سے کم ہوکر اڑھائی فیصد تک آگیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ مزید لکھتے ہیں کہ امریکی محکمہ خزانہ دنیا میں تیزی سے فروغ پذیر مارکیٹ شراکت داروں، ارجنٹائن ، برازیل، بھارت اور میکسیکو کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور سرمایہ کاری اور ٹیکس پالیسیوں کے حوالے سے ان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کے درمیان معاشی تعاون کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سٹرٹیجک اورمعاشی مذاکرات کے نتیجے میں عالمی معیشت کو ازسر نو ترتیب اور توازن دینے میں مدد مل رہی ہے۔