ایسا کب تک چلے گا؟

Apr 13, 2023

محمد معاذ قریشی


 اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارا پاکستان ایک جیتا جاگتا ملک تھا۔ ہم معاشی لحاظ سے مضبوط نہ تھے لیکن باقی سب کچھ تھا، غربت تھی لیکن خوشیاں تھیں‘ میل جول تھا‘ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کا احساس تھا اور بھائی چارہ ایسا کہ کسی اور معاشرے میں جس کی نظیر ملنا مشکل تھی، پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ یہ احساس ختم ہو گیا اور صرف احساس ختم نہیں ہوا بلکہ احساسِ زیاں ہی جاتا رہا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایک پاؤ گوشت خرید کر پورا گھرانا اپنی پروٹین کی ضروریات پوری کر لیتا تھا، آلو ڈال کر گوشت پکاتے تھے اور ایک پیالہ سالن پڑوسی کو دینا نہیں بھولتے تھے۔ سفر کے لئے ہر کسی کے پاس سواری نہ تھی‘ اس لئے لوگ پیدل سفر کرتے تھے یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے، تب پبلک ٹرانسپورٹ کی بھی ایسی خستہ حالی نہ تھی جیسی اب ہے۔ 


اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ اچھی زندگی کی منزل تک پہنچنے کے لئے رحم و کرم پر قائم عدل و انصاف کا نظام ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر انسان ایک اچھی خوش حال اور بہتر زندگی گزار سکتا ہے، آسودہ رہ سکتا ہے، باہمی گفت و شنید جاری رکھنا تاکہ ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے، ایک دوسرے کے ساتھ افہام و تفہیم قائم رکھنا تاکہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوا جا سکے، عفو و درگزر سے کام لینا تاکہ معاشرتی تال میل کو برقرار رکھا جا سکے، ایک دوسرے کو قبول کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلق والی زندگی گزارنا تاکہ ایک مثالی سماج مرتب کیا جا سکے۔  یہی وہ طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے سماجی، سیاسی، اقتصادی مسائل اور ماحول کی وہ ساری پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں جن سے آج کا انسان دوچار ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لئے گفت و شنید کے طریقے کا مطلب مشترکہ سماجی‘ اخلاقی اور روحانی اقدار میں یکسانیت پیدا کرنا ہے۔ ایسا ہو جائے تو یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس سے اس بہترین سماج کی بنیاد پڑے گی جو انسانی ترقی کی منزل کا راساتہ ہموار کر سکے۔


افسوس کہ ہم سب یہ ساری باتیں‘ یہ سارے سبق اور یہ ساری خصوصیات بھولتے چلے گئے اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم سے اپنے داخلی معاملات بھی نہیں سنبھالے جا رہے اور بیرونی دنیا کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ اور تو اور ہم سے اپنی معیشت ہی سنبھالی نہیں گئی۔ ہم اپنی آزادی کی پچھترویں سالگرہ تو منا چکے ہیں لیکن کسی نے یہ سوچا کہ عالمی برادری میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا آزادی کے پچھتر سال گزارنے کے بعد ہمیں یہیں ہونا چاہئے تھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا اتنا بھی مشکل نہیں۔ صرف یہ دیکھ لیجئے کہ معاشی لحاظ سے ہماری پوزیشن کیا ہے‘ سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ ہمیں آئی ایم ایف سے قرض درکار ہے اور اس کے لئے ہم اس کی ہر جائز و ناجائز شرط مان رہے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ اس کے ہمارے ملک و معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ حتیٰ کہ عالمی اقتصادی ادارہ قرضہ دینے کے لئے بیرونی ضامنوں کا تقاضا کر رہا ہے اور ہم وہ بھی فراہم کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پورے جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہے جہاں مہنگائی بے لگام ہے۔ یہاں کے عوام سو روپے کی چیز کے ایک سو تیس روپے دینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا موازنہ جب بھارت سے کیا جاتا ہے تو اربابِ بست و کشاد عام طور پر اسے پسند نہیں کرتے لیکن کیا کیا جائے اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ میں نے بیان بھی کر دی۔ دوسری طرف بھارتی کرنسی عالمی حیثیت حاصل کرنے جا رہی ہے۔ خبر یہ ہے کہ بھارت کے مرکزی بینک آر بی آئی نے جرمنی، کینیا، سری لنکا، سنگا پور، برطانیہ سمیت 18 ممالک کو روپے میں لین دین کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ممالک بھارتی روپے کو ہندوستانی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور ہندوستان سے سامان اور خدمات خریدنے میں استعمال کریں گے۔ اس سے بھارت کے لئے تجارت سے متعلقہ لین دین کے اخراجات کم ہوں گے اور تجارت کو فروغ ملے گا۔ اس کے علاوہ، یہ عمل بھارت مالیاتی منڈیوں کی ترقی کو فروغ دے گا۔


یہ تو میرے سامنے کی بات ہے کہ پاکستانی روپیہ بھارتی روپے کی نسبت مضبوط تھا‘ یعنی عالمی منڈی میں اس کی قدر زیادہ تھی۔ تب ہمارا ایک روپیہ بھارت کے دو روپے کے برابر ہوتا تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بھارتی کرنسی ہمارے روپے سے دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کئے بنا گزارہ نہیں کہ یہ سب کچھ ہماری دہائیوں تک جاری رہنے والی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ ہم کب تک مانگ تانگ کر گزارہ کرتے رہیں گے؟ ہم نے ایک اچھے خاصے ملک کو کیا بنا دیا ہے۔ کل کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔ ارے بھائی کیوں مذاق کرتے ہو۔ دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت کے یہ حالات نہیں ہوا کرتے جو ہمارے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف کا پانچواں مقروض ملک ہے جس کا ہر شہری ڈھائی لاکھ روپے تک کا مقروض ہے۔ کیا ترقی کرنے والی ملکوں کے مالی حالات یہ ہوتے ہیں؟ 


کہنا یہ ہے کہ ہم نے اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے تو ہاتھ دھوئے ہی‘ معاشی میدان میں بھی عالمی برادری سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جہاں تک احساسِ زیاں کے جانے کی بات ہے تو آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارے حکمرانوں کو سادگی کا نمونہ ہونا چاہئے تاکہ عوام بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر سادہ زندگی بسر کریں اور اس طرح ملک کو معاشی دلدل سے نکالا جا سکے‘ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کسی کو احساس نہیں کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور روپے کی قدر میں ہر کمی اور مہنگائی کی شرح میں ہر اضافے کے ساتھ ان کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہو رہی ہے اور وہ ایک ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف اقتدار کے حصول کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ یوں جیسے ملک کو ترقی دینے کا کوئی مجرب نسخہ ان کے ہاتھ آ گیا ہو۔ ارے بھائی عوام آج جو کچھ بھگت رہے ہیں‘ وہ آپ کی ہی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اب تو معاف کر دیں اس بے چارے ملک اور اس کے ہمیشہ قربانیاں دینے والے سادہ لوح عوام کو۔ 

مزیدخبریں