لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے، دکھ سکھ بانٹ لیتے تھے اور معاشرتی مسائل پر قابو پا لیتے تھے، سچ ہے بعض لاتوں کے ہی بھوت ہوتے ہیں

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط37:
چچا رشید اورخالہ تاجی؛
ہمارے ہمسائے میں ”چاچا رشید“(شیداکوچوان) کا گھر تھا۔ اس کے گھر میں لگے شیشم کے بڑے سے درخت کی آدھی شاخیں ہمارے گھر تک اتری تھیں۔اس کی بیوی ”خالہ تاج“(محلے کی عورتیں اسے تاجی کہتی تھیں۔)بڑی لڑاکی عورت تھی۔ ہر وقت سر پرڈوپٹہ باندھا ہوتا(اس دور میں عورتیں سر درد کے علاج کے طور ر سر پر ڈوپٹہ باندھ لیتی تھیں۔) اور ہر وقت چاچارشید کے ناک میں دم کئے رکھتی تھی۔ چاچا صبح سویرے تانگے لے کر نکل جاتا اور منہ اندھیرے گھر لوٹتا تھا۔خالہ صبح شام چچا کو کوستی اور وہ بھلا مانس خاموش ہی رہتا تھا۔ ان کی لڑائی بڑھ جاتی تو میرے گھر پنچائت لگتی۔ تاجی کو ابا جی سخت ناراض ہوتے۔ اسے پیار اور غصہ کے ملے جلے لہجے میں سمجھاتے کہ رشید سارادن ت محنت مزدوری کرتا ہے، تم لوگوں کو کما کر دیتا ہے۔ گھر میں سکون رکھو۔ وہ میرے والدین کی باتیں بڑے غور سے سنتی مگر اس پر ان باتوں کا اثر اس پر دو تین گھنٹے سے زیادہ نہ رہتا تھا اور کچھ دن پھر ایسی ہی ایک اور پنچائت لگتی۔ رشید کے پانچ بچے بھی ساتھ ہی آتے اور ماسوائے بڑی بیٹی کے باقی سبھی اپنی ماں کے برے روئیے کی شکایت ہی کرتے تھے۔ خالہ تاجی اپنے مزاج کی عورت تھی۔ باز نہ آتی تھی۔ ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چاچا رشید نے کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے تاجی خالہ کی پٹائی شروع کی اور مارتا ہی چلا گیا۔ اس کی بڑی بیٹی جیراں روتی ہوئی امی جی کے پاس اور بولی؛”آپاں جی میرے نال چلو ابا کپڑے دھونے والے سوٹے نال اماں نوں کٹ رئیا اے۔“امی جی گئیں اور بڑی مشکل سے ہی تاجی خالہ کو رشید سے چھڑایا۔ میری ماں نے چچا رشید کو ڈانٹا تو بولا؛”آپاں جی! بڑی ہو گئی۔ روز روز دی بکواس توں تنگ آ گیاں مئیں۔سکون ہی نہیں چھڈیااس زنانی نے۔“ محلے کی کچھ اور عورتیں بھی آ گئیں۔ میری امی کی پوزیشن ان سب میں معتبر تھی۔ سب نے اپنی اپنی عقل کے مطابق مشورے دئیے۔ اس دور میں لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے، دکھ سکھ بانٹ لیتے تھے اور معاشرتی مسائل پر قابو پا لیتے تھے۔ امی جی ان دونوں کو گھر لے آئیں۔ انہیں پانی وانی پلایا اور پھر بیٹھ کر دونوں اور خاص طور پر تاجی خالہ کو سمجھاتی رہی تھیں۔اس مار کا اور والدہ کی تقریر کا خالہ تاجی پر بڑا اثر ہوا۔ اس نے چچا سے لڑائی سے توبہ کر لی اور چاچارشید کا خیال کرنے لگی تھی۔ سچ ہے بعض لوگ لاتوں کے ہی بھوت ہوتے ہیں۔خالہ بھی ایسا ہی بھوت تھی۔
میرے ہاف برادرز؛
میری والدہ کی پہلی شادی سے4 بچے تھے یعنی میرے three half brothers and one half sister ۔ سب سے بڑے خالد فاروق۔(یہ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ ریٹائیر ہوئے۔ ان کی 3 بیٹیاں آسمہ، صائمہ اور ثناء ہیں۔ ماشاللہ نواسے نواسیوں والے ہیں۔ خوشحال انسان ہیں۔)دوسرے زاہد انور۔ (یہ امریکی شہری ہیں۔ ان کا 1 بیٹا احمد 2 بیٹیاں مریم اور رابعہ ہیں۔ مریم اور احمد امریکہ ہوتے ہیں جبکہ رابعہ انگلینڈ۔ان کی بیگم باجی ثمینہ امی جی کی ماموں زاد ہیں۔صوم صلوٰۃ کی پابند۔)تیسری باجی نگہت۔(ہم پیار سے انہیں ”باجی نگو“ کہتے ہیں۔ پیار اور محبت کرنے والی روح۔ یہ بھی امریکی شہری ہیں۔ ان کی 2بیٹیاں آمنہ اور عائشہ اور ایک بیٹا سلیمان ہے۔ سبھی امریکہ میں رہتے ہیں۔ ان کے میاں بھائی جان انیس اپنی طرز اور غرض کے واحد انسان ہیں۔)سب سے چھوٹے بھائی جان عمران انور پاشا ہیں۔(یہ بینک سے ریٹائیر ہوئے۔ میری ان سے بڑی دوستی ہے۔ ان کی 3 بیٹیاں سعدیہ، سونیا اور زارا ہیں۔ان کی شادی بھی امی جی کی ماموں زاد باجی غزالہ سے ہوئی۔ وہ بڑی دین دار اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ میری ان سے بھی بڑی دوستی تھی۔اپریل 2023میں اپنے ابدی گھر چلی گئیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔ہم سب بہن بھائیوں کا آپس میں محبت اور پیار کا رشتہ ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔