قومی سلامتی اور حب الوطنی کی آزمائش

قومی سلامتی اور حب الوطنی کی آزمائش
قومی سلامتی اور حب الوطنی کی آزمائش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کی سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہونا کوئی اچنبھے  کی بات نہیں،بلکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔اختلافات تو ایک گھرکے افراد کے درمیان بھی ہوجاتے ہیں لیکن جب گھرمیں آگ لگ جائے تو گھر کےسب لوگ اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک میں اس وقت دہشت گردی کی   آگ لگی ہوئی ہے اور ہمارا  وطن عزیز دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔اس وقت دہشت گردی کی آگ پر فوری طورپر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔سب کو ذاتی اور سیاسی مفادات کو بھلا کر ملکی بقا کیلئے متحد ہونا ہوگا۔سیاست بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔یہ ملک ہے تو ہم ہیں،اس لیے اب سب کو متحد ہوکر دہشت گردی کی لہر کے آگے بند باندھنا ہوگا اور وطن کی سلامتی کی فکر کر ناہوگی۔آج کل ملک وقوم کیلئے آزمائش کے دن ہیں اور ہم سب کیلئے حب وطن کی آزمائش ہے۔

ہمارابزدل دشمن اب روایتی جنگ کی بجائے مذموم کارروائیوں کا سہارا لے کر ملک میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتا ہے۔ انہیں غیر روایتی حربے یا طریقے بھی کہا جاتا ہے جن کا مقصد کسی ملک کی ساکھ کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا کر اسے سیاسی،معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور اور تنہا کر ناہوتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان بھی اس مسئلے سے دوچار ہے کیونکہ اس کے دشمن نہیں چاہتے کہ یہ ترقی کرے اور مستحکم ہو۔ غیر روایتی حربوں میں ہائبرڈ وار فیئر یا ففتھ جنریشن وار سر فہرست ہے۔ اس جنگ میں حملہ آور سامنے نہیں آتا بلکہ وہ پوشیدہ رہ کر خفیہ طریقے سے ملکی سلامتی پروار کرتا ہے۔اس طرح یہ بھی دہشت گردی کی ہی ایک شکل بن جاتی ہے۔پاکستان کی سِول اور عسکری قیادت بخوبی آگاہ ہے کہ دشمنوں نے پاکستان پر ہائبرڈ وار فیئر یعنی ایک کثیر الجہتی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کا مقصد ملک کو غیرمستحکم کرنا اور اسے دفاعی واقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔اس جنگ میں عموماً نظریاتی ساکھ پر وار کیا جاتا ہے اور ریاست مخالف نظریات کو ہوا دے کر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد عوام کے اندر بے چینی پھیلا کر افراتفری اور انتشار کے ذریعے ملک کو انارکی اور بد امنی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔بدقسمتی سے اس سارے عمل میں نوجوانوں کو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے اذہان کو پراگندہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کا اداروں پر اعتماد کم ہو جائے۔یہ ایک بھیانک طریقہ کار ہے جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آتا مگراس کے نتائج انتہائی تباہ کن اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کئی موقعوں پر ایسے عناصر کو متنبہ کر چکے ہیں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں ۔ 

وطن عزیز میں جاری دہشت گردی کی ایک انتہائی مہلک صورت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی معلومات بھی ہیں جنہیں بہت سے لوگ بالخصوص نوجوان بنا سوچے سمجھے اور بنا تحقیق کیے سچ مان لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک خاص طریقہ کار اپنایا جاتا ہے جس میں لوگ کھلم کھلا سامنے نہیں آتے بلکہ وہ مختلف گروپوں کی شکل میں سادہ لوح عوام اور نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف جھوٹی معلومات پر مبنی کئی بیانیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ادارے عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے ایکو چیمبرز کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ان کا کردار انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔یہ نوجوان نسل کے اذہان میں ایسا زہر گھول دیتے ہیں جس کا تریاق ڈھونڈنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔ اس ضمن میں آج کل تین قسم کی اصطلاحیں یعنی مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن اور مال انفارمیشن بہت عام ہیں جن کے بارے میں جاننا ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ ہم سب اس پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکیں۔

بظاہر ان تینوں میں معمولی فرق پایا جاتا ہے مگر ان کا استعمال اس مہارت سے کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ا س کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ تینوں حربے جھوٹی معلومات اور فیک نیوز کو پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ افواج پاکستان اس پروپیگنڈے اور ان تمام حربوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے تدارک کے لیے اقدامات کر رہی ہیں، تاہم ہم سب پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے شعور و آگہی میں اضافہ کریں اور سوشل میڈیا پر پائے جانے والے ایسے تمام گروہوں سے باخبر ر ہیں جو ملکی سلامتی ، عوام اور قومی و عسکری اداروں کے درمیان دراڑ ڈال کر نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔

وزیر اعظم میاں شہبازشریف کی تجویز پرسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں منگل کو ہونے والے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین،آرمی چیف،اہم دفاعی وحکومتی شخصیات اور سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔بدقسمتی سے تحریک انصاف کی قیادت نے اس آزمائش کے وقت پر بھی قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔اور اس اہم اجلاس میں شریک ہوکر حب الوطنی کا ثبوت دینے کی بجائے پی ٹی آئی اور اس کے ہم خیال دیگر سیاسی رہنماؤں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پارلیمانی کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر  پر تفصیلی غورکیا۔ افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کے اظہار کی مذمت کی گئی۔ دہشت گردی کے چیلنجزپرقابو پانے کے لیے قومی وضروری قوانین نافذ کرنے اوراداروں کی بھرپورحمایت پر زور دیا گیا۔یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکا فیصلہ کیا ہے۔دہشت گردی کی حمایت کرنے والےکسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائےگی۔

کمیٹی نے سوشل میڈیا پردہشت گردی کے بیانیے کوفروغ دینے والوں کےخلاف سخت کارروائی کی سفارش کی۔ کمیٹی نےواضح کیا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔کمیٹی نے اس بات پربھی زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمےکے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ کمیٹی نےسفارش کی  کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتربنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی عدم شرکت پر افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ مشاورت کا عمل جاری رہےگا۔پارلیمانی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیے، ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

سپیکر قومی اسمبلی نے آرمی چیف سید عاصم منیر سے میٹنگ کے آخر میں دعا کی درخواست کی۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں کامیابی کے لیے دعا کروائی۔اب رمضان المبارک کی  مبارک ساعتوں میں تمام سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابی کیلئے صدق دل سے دعا کرنی چاہیے۔ان شااللہ کامیابی ہمیشہ کی طرح مسلح افواج کے قدم چومے گی۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

مزید :

بلاگ -