کئی بار ایسا بھی ہوا کہ لوگوں نے محمد رفیع صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ کسی سکول ٹیچر یا پروفیسر کے پاس ٹیوشن رکھ لیں اور پڑھ لکھ لیں ۔وہ ہنس دیا کرتے اور کہتے تھے کہ اب انکے سکول جانے کے دن نہیں۔محمد صدیق رفیع جب کبھی انکے پاس انڈیا جاتے تو یار دوست ان کے سامنے بھی کہہ دیتے کہ آپ نے تو چار جماعتیں پڑھ لیں ،رفیع صاحب بھی پڑھ لیتے تو کیا ہوتا ۔اس پر محمد صدیق رفیع انہیں ایسا نکتہ سمجھاتے کہ دوست احباب واہ واہ کرتے رہ جاتے ’’ وہ زمانہ اب دور نہیں رہا جب رفیع بھائی پر ہندوستانی پی ایچ ڈی کیا کریں گے ‘‘
’’ سچ کہا ،واقعی ان جیسے کلاکار پر لکھی کتابیں لوگ پڑھا کریں گے ،انہیں سکول کالج جانے کی کیا ضرورت ہے ‘‘
محمد رفیع نے زندگی بھر کبھی تعلیم کی کمی کو اپنا روگ نہیں بنایا ۔وہ اپنے دور کے انتہائی پڑھے لکھے اور پاپولر اداکاروں کے لئے گیت گاتے جیسا کہ دلیپ کمار،راجکپور ،امیتابھ بچن ،راجندر کمار ایسے تمام اداکار انگریزی میں بات چیت کیا کرتے تھے لیکن محمد رفیع کو اس پر کوئی احساس کمتری نہیں تھا کہ وہ ٹھیٹ پنجابی بولتے یا اردو بول لیتے ہیں ،انگریزی سے زیادہ آشنائی نہیں تھی لیکن اسکو آپ کیا کہیں گے کہ انہوں نے بغیر کسی ٹیوٹر کے انگریزی کے گیت بھی گائے ،ایسا گایا کہ ان کا تلٖفظ کوئی انگریزی دان بھی کیا ادا کرتا ہوگا۔ہندوستان بھر کی زبانوں میں ایسے گایا جیسے وہ ان کی مادری زبانیں ہوں۔قدرت نے جو صلاحیت اور خوبی ودیعت کی تھی اس میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا ۔اس لئے وہ اپنی کم علمی کو وجہ ندامت نہیں بناتے تھے ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 10پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اپنے عروج کے زمانے میں ایک بار وہ گلوکار مہندراکپور کو اپنے ساتھ ایک تقریب میں لے گئے ۔اس زمانے میں مہندر کپورابھی سٹوڈنٹ تھے اور رفیع صاحب کا ان سے بڑا یارانہ تھا ۔مہندرا کپور انہیں پیار اور ادب سے بھائی جان کہا کرتے تھے ۔تقریب کے اختتام پر محمد رفیع کو ان کے مداح نوجوان لڑکے لڑکیوں نے گھیر لیا اور آٹو گراف کا مطالبہ کیا ۔محمد رفیع نے معصومانہ انداز میں مہندرا کی طرف دیکھا اور پنجابی میں پوچھا’’ اے کی کہندے نیں‘‘
مہندرا کپور بھی خالص امرتسریا تھے،انہوں نے سمجھایا’’ بھائی جان اے تہاڈے دستخط منگدے نیں‘‘ مہندرا نے انہیں آٹوگراف بارے بتایا تو محمد رفیع نے کہا ’’ اچھا تے فیر توں آپ کردے دستخط اور لکھ دے جوکج لکھناں اے ‘‘
مہندراکپور کو علم تھا کہ دنیا جسے گائیکی میں دیوتا مانتی ہے وہ خود دستخط کرنے میں بھی شرما جاتا ہے ،کئی بار تو انگوٹھا لگا کر وہ اپنا کام کرلیتے تھے لیکن وہ زمانہ اب بیت گیا تھا ،دستخط کرنا انہوں نے سیکھ لیا تھا کیونکہ فلموں میں اکثر انہیں معاہدوں پر دستخط کرنے پڑتے تھے ۔عام طور پر ان کے ساتھ حمید بھیا ہوا کرتے تھے جو ان کے ہمدم دیرینہ تھے اور لاہور کے گریجویٹ تھے ۔اس دن مہندرا نے طالب علموں کی نوٹ بک پر سادہ لفظوں میں محمد رفیع ،محمد رفیع لکھ دیاتھا اور بچے اس پر ہی خوش تھے ۔
’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘ جیسے مقبول ترین گانوں سے شہرت پانے والے مہندرا کپور پر محمد رفیع کی چھاپ تھی،وہ بھی دل اور گیان سے گاتے اور محمد رفیع کو اپنا استاد گردانتے تھے ۔اسکی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ وہ اس کا ذکر بھی کیا کرتے تھے کہ محمد رفیع نے انہیں تین باتوں کی نصیحت کی تھی جس پر انہوں نے عمل کیا اور ان کے سُروں کو جیون مل گیا تھا ۔محمد رفیع نے مہندرا کپور سے کہا تھا ’’ دیکھو اگر تم گلوکار بننا چاہتے ہوتو تین باتوں کا دھیان رکھنا ۔کبھی کسی کے سامنے نظر نہ اٹھانا ،نظریں جھکا کر ہی رکھنا، کسی سے جھگڑا نہ کرنا اور کسی کو اپنا مقصد نہ بتانا ،کبھی کردار کا سودا نہ کرنا ،جتنا مرضی کوئی لالچ دیوے ،لالچ میں نہ آنا ‘‘
اک مہندرا کپورہی کیا جس نے بھی محمد رفیع کی ان تین باتوں پر عمل کیا وہ اپنی منزل پر پہنچ گیا۔محمد رفیع کی اپنی زندگی ان تینوں سنہری اصولوں پر قائم تھی ۔جب وہ لاہور سے بمبئی کے بھنڈی بازار میں ہجرت کرکے پہنچے تھے ،پہلے دن سے انہوں نے اپنی ان تینوں باتوں سے دوسروں کے دلوں میں جگہ بنا لی تھی ۔غور کیا جائے تو یہ تینوں حکمت کے موتی ہیں جنہیں دنیا کھنگالتی رہتی ہے لیکن یہ کسی کسی کے ہاتھ لگتے ہیں ۔کامیابیوں کی منزل تک پہنچنے والے خود مختار اپنی زندگی خود بنانے والوں کے لئے یہ تینوں موتی منزل کی روشنی بن جاتے ہیں ،ظاہر ہے جو بندہ کسی کے سامنے نظر اٹھا کر کسی سے خود کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرے گا تو لوگ اسکی تابعداری کو پسند کریں گے ،نہ وہ کسی سے لڑے گا تو ایسا صلح جو کسے پسند نہیں ہوگا جو اپنے کردار میں بھی سچا ہوگا اور مخلص ثابت ہوگا ،ایسے باصلاحیت بندے کو ہر کوئی پسند کرتا ہے جس سے کسی کو ئی خطرہ نہیں ہوتا اور راستہ خود بخود کشادہ ہوتا جاتا ہے ۔اسکی نسبت لڑنے جھگرنے والے ،اپنی ’’میں‘‘ دکھا کر دوسروں پر رعب جمانے والے، رنگ بازی سے منزل کا راستہ کھوجنے والے جلد اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔محمد رفیع نے ان تینوں موتیوں کو اپنے من میں سینچ کر رکھا تھا ۔اس سے ان میں عاجزی اور دوسروں کے لئے احترام پیدا ہوتا تھا ۔
ایک دفعہ ماہ رمضاں میں لتا جی کے ساتھ ان کے گانوں کی ریہرسل ہورہی تھی ۔جب تین بار ٹیک ہوچکی تو میوزک ڈائریکٹر کو ایک ٹیک پسند آگئی تو اس نے اوکے کردیا ۔گرمی شدید تھی اوررفیع صاحب روزہ میں تھے ۔لتا جی نے دیکھا کہ رفیع جی ٹیک کراکے جانے لگے ہیں تو انہوں نے میوزک ڈائریکٹر کو ہلکے سے اشارہ کیا ’’ ایک اور ٹیک کرالیں ‘‘ انہیں شبہ تھا کہ جو ٹیک اوکے ہوئی ہے اس میں ان کا حصہ ٹھیک نہیں رہا یا پھر ان کی محمد رفیع سے پیشہ وارانہ چشمک کا بہانہ تھا ۔میوزک ڈائریکٹر نے فوراً پھر سے ٹیک کرنے کا بول دیا ۔محمد رفیع اس دوران لتا جی کے اشارے کو دیکھ چکے تھے ۔انہیں سمجھ آگئی کہ ان کے ساتھ شرارت کی جانے لگی ہے تو وہ بھڑک اٹھے ۔سامان اٹھایا اور باہر چل دئیے اورکہا ’’ میں ٹیک نہیں کراوں گا ‘‘
اتفاق کہیے کہ یہ گانا جس اداکار پر فلمایا جانا تھا وہ خود محمد رفیع صاحب کا بے حد تابعدار تھا ۔اسکا نام گلشن باورا تھا ۔گلشن باورا نے بعد میں ہندوستانی فلموں میں گیت نگار کے طور پر دھوم مچا دی تھی اور اڑھائی سو یادگار گانے گائے ،وہ محمد رفیع کے پاس گئے اور ادب سے بولے ’’ رفیع صاحب میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ روزے سے ہیں اور آپ سے زیادتی ہونے جارہی ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ گانا کس پر فلمایا جائے گا ‘‘
رفیع صاحب ہنوز غصہ میں تھے ’’ ہوگا بھئی دلیپ کمار پر یا کسی اور پر ‘‘
’’ نہیں یہ آپ کے اس خادم پر فلمایا جائے گا‘‘ گلشن باورا نے عرض کیا تو محمد رفیع کا غصہ اچانک بلبلہ بن کر اڑگیا ’’ارے تونے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ یہ گانا تیرے پر ہوگا ‘‘ یہ کہتے ہی انہوں نے ا پنے لوگوں سے کہا ’’ چلو چلو اندر چلو ہم پھر ٹیک کرائیں گے ‘‘ محمد رفیع نے اس دن وہی گانا گانے کے لئے اس کے مزاج کو سمجھا اور رات کے سمے میں گانا فلمانے کی نیچر کو سامنے رکھ کر مزید تین چار ٹیک میں گانا اوکے کرادیا ۔یہ محمد رفیع کا بڑا پن تھا جو بچپن میں ان کی عادت اور مزاج کا غالب حصہ تھا جس نے ساری عمر انہیں محبت اور سادگی کے ساتھ بسر کرنے کی تلقین کی۔(جاری ہے )
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں