مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 12
بمبئی کے بھنڈی بازار میں محمد رفیع نے بہت کچھ سیکھا ،یہ تاریخی بازار تھا جو کسی زمانہ میں انگریزوں نے سبزیوں اور پھلوں کے لئے آباد کیا تھا ۔یہاں ممبئی کے بڑے گھرانے سبزیاں فروٹ لینے آیاکرتے تھے ۔بازار میں صبح سویرے ہی بیوپاریوں کا کافی رش ہوجایا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے دن میں کئی بار اس بازار کا سکون بھی غارت ہوجاتا تھا ۔
گائیکی کے لئے ریہرسل اور حصول رزق کا یہ دور محمد رفیع کے لئے تگ و دو کا زمانہ تھا جوان کی زندگی میں کئی انقلاب لیکر آیا ۔ایسا نہیں تھا کہ بمبئی میں قدم رکھتے ہی ان پر کامیابیوں کے دروازے کھل گئے تھے ۔وہیں تنگ اور چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہوئے انہیں زمانہ کی استادی کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ روزانہ پنج گانہ نماز ادا کرنے کے لئے باراز کی نواب مسجد میں جاتے اور ہمیشہ دعا کرتے ’’ مالک مجھے عطا کر لیکن وہ عطا کر جس سے تو راضی ہوجائے ‘‘کئی بار ان کا خشوع وخضوع ایسا بڑھتا کہ آنکھیں اشک بار ہوجاتیں اور پھر ان کے دل کو سکون اور ڈھارس مل جاتی ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محمد رفیع رفعتوں کے مسافرتھے جس سے ان کے دل میں دوسروں کا احترام کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔وہ مسجد میں جانے کے لئے نماز فجر کے وقت اپنے کمرے سے نکلتے تو نگاہیں جھکا لیتے اور جو ملتا اسکو آداب پیش کرتے ۔ایک ٹھیٹ پنجابی ہونے کے باوجود وہ بمبئی کے ماحول کو جان گئے تھے اس لئے انہوں نے اردو ہندی کو بھی اپنا وطیرہ بنالیا تھا ۔سلام کی بجائے آداب کہنے کی عادت ڈال لی۔نماز فجر کے بعد وہ بمبئی کے ساحل کی طرف نکل جاتے ۔یہ ساحل وہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا ۔وہ پیدل ہی وہاں جاتے تھے ۔ایک تو صبح خیزی کے وہ عادی تھے دوسرا انہیں ریاض کرنا ہوتا تھا ۔انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اپنے کمرے میں وہ گھنٹوں ریاض نہیں کرسکتے کیونکہ لوگ ڈسٹرب ہوسکتے تھے اور انہیں کامل یکسوئی نصیب نہ ہوتی ۔ساحل پر وہ ایک جانب خاموشی سے جگہ چن لیتے اور ریاض کرنے لگ جاتے ۔یونہی گھنٹوں وہ ریاض کرتے ۔اس بارے کہا جاتا ہے کنگالی کے دور میں ہی انہیں یہاں ریاض کرتے ہوئے اس وقت کی سپر سٹار ثریا نے دیکھا تو ان کی آواز سن کر وہ حیران رہ گئی۔وہ سیر کے لئے ساحل پر آیا کرتی تھیں ۔ثریا نے دیکھا کہ ایک نوجوان دنیا و مافیہا سے بے خبر ریاض کررہا ہے،حمد اور کلام گارہا ہے تو کئی منٹ تک وہ اسکو سنتیں رہیں۔پھر اس کے پاس گئیں اور پوچھا ’’ تم گائیک ہو ‘‘
محمد رفیع کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ثریا ہیں ۔وہ ایک دلکش خوبرو لڑکی کو سامنے دیکھ کر پریشان ہوگئے اور شرم سے دہرے ہوکر کہا ’’ جی بہن جی،کوشش کررہا ہوں کہ گائیک بن جاوں ‘‘
’’ یہاں روزانہ آتے ہیں‘‘ ثریا نے پوچھا
’’ جی روز آتا ہوں ‘‘ محمد رفیع نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا
’’ اپنے گھر میں ریاض کیوں نہیں کرتے ‘‘ ثریا نے استفسار کیا۔ محمد رفیع نے انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کیا اور اپنے بارے میں بتایا تو ثریا کھل اٹھیں ’’ میں بھی تو لاہور کی ہوں ۔‘‘ثریا نے اپنا تعارف کرایا تو محمد رفیع کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا ۔اپنایت کا احساس ہوا۔یہ تو انہیں معلوم تھا کہ ثریا نام کی ایک گلوکارہ ایسی بھی ہے جس نے بچپن میں فلموں میں گانا شروع کردیا تھا لیکن انہیں اسکا اندازہ نہیں تھا کہ قسمت ایک دن انہیں ملابھی دے گی ۔ثریا اپنے زمانہ کی بڑی مہنگی گلوکارہ اور ایکٹرس تھیں ۔بلکہ انہیں مہنگی ترین کہا جاتا تھا ۔بارہ سال کی عمر میں انہوں نے فلم نئی دنیا میں گانا گایا تھا بعد میں زیادہ تر اپنی فلموں میں ہی گانے گایا کرتی تھیں ۔دلکش نین و نقش والی ثریا نے فلمی دنیا میں تہلکہ مچا کررکھا ہوا تھا ۔جس زمانے میں ان کی محمد رفیع سے ملاقات ہوئی ،وہ محمد رفیع کا تو ابتدائی زمانہ تھا لیکن ثریا کا دام اونچا تھا ۔مغل اعظم میں انہوں نے چائلڈ سٹار کے طور پر کام کرے لازوال شہرت پائی تھی ۔
ثریا نے اس روز محمد رفیع کو آفر کی کہ وہ ان کے گھرکی بالکونی میں آجائیں اور وہیں رہیں بلکہ ریاض بھی وہیں کیا کریں ۔محمد رفیع کے لئے تو یہ معجزہ ہی تھا ۔انہوں نے ثریا کو بہن کہہ کر پکارا اور پھر وہ اپنی اس منہ بولی بہن کے ساتھ کافی عرصہ تک رہے ۔بلکہ وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے ثریا کے ساتھ ڈوئٹ گائے اور اپنے دور کے مقبول گیتوں میں ان کا شمارہونے لگا ۔
ثریا کے ہاں منتقل ہونے سے پہلے محمد رفیع بھنڈی بازار میں ہی مقیم رہے ۔انہیں شیام سندر کی تلاش تھی جنہوں نے ایک زمانہ میں ان کے بھائی کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا تھا کہ جب رفیع بمبئی آجائے تو ان سے رابطہ کرے ۔یہ مشکل امتحان تھا کیونکہ وہ شیام سندر کا نام بھی ٹھیک سے یاد نہیں رکھ سکے تھے ۔ان سے آٹھ دس سال پہلے لاہور میں ملاقات ہوئی تھی اور اب انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ شیام سندر انہیں پہچان بھی پائیں گے یا نہیں۔شیام سندر کی تلاش کے ساتھ ساتھ وہ محنت بھی جاری رکھے ہوئے تھے اس لئے خدا نے ان کی سن لی اور ایک دن جب وہ کام کی تلاش میں سٹودیو گئے تو شیام سندر سے ملاقات ہوگئی اور جب انہیں یاد کرایا گیا تو وہ جان گئے کہ ہاں یہ وہی لڑکا ہے جس نے لاہور میں کے ایل سہگل کے شو میں مائیک کے بغیر گاکر مجمع لوٹ لیا تھا ۔شیام سندر ان دنوں پنجابی فلم گل بلوچ کی میوزک تیار کررہے تھے ۔اس سے پہلے وہ لیلی مجنوں ،جگا ڈاکو اور سوہنی کمہارن کے نام سے پنجابی فلموں کا میوزک دے چکے تھے۔شیام سندر نے صرف چار پنجابی فلموں کا ہی میوزک دیا ،اسکے بعد وہ تقریباً چوبیس ہندی فلموں کا میوزک دیکر انڈسٹری کو خیر باد کہہ گئے تھے ۔ گل بلوچ میں انہوں نے محمد رفیع سے جو پہلا گانا گوایا وہ زینت بیگم کے ساتھ تھا جس کے بول تھے ’’گوریے نی ہیرئے نیں تیری یاد نے بہت ستایا‘‘۔یہ گانا 1944کی فلم گل بلوچ میں سامنے آیا تو مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔شیام سندر نے اگلے سال پھرمحمد رفیع کو اپنی فلم ’’ گاوں کی گوری ‘‘ کے لئے پلے بیک سنگر کے طور موقع دیا ۔اس فلم میں جی ایم درانی کے ساتھ انہوں نے ایسا سدا بہار گانا ریکراڈ کرایا جو پورے برصغیر میں برسوں تک گونجتا رہا ۔اسکے بول تھے ’’ اجی دل پہ ہوقابو تو دلدار کی ایسی تیسی ‘‘ جیسا کہ اسکے بولوں سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس گانے کو نوجوانوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔کالجوں میں لڑکے لڑکیوں کے جتھے کو دیکھ کر یہ گانا شروع کردیتے تھے ۔ محمد رفیع کا دعویٰ تھا یہ گانا ان کی ہندی فلموں میں آمد کا باعث بن گیا تھا ۔لیکن اسکے بعد اچانک ان کے راستے پھر محدود و مسدود ہونے لگے ۔وہ خود کو محدود نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ شیام سندر کے پاس سال بھر میں چند گانے گا کر ان کا من نہیں بھرتا تھا اس لئے انہوں نے سوچنا شروع کردیا کہ کیا ہونا چاہئے ۔اس زمانے میں طلعت محمود جیسے گلوکار کا طوطی بھی بول رہا تھا اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سہگل کو بنانے میں اگر شیام سندرکا ہاتھ تھا تو طلعت محمود کے پیچھے نوشاد جیسا استاد موسیقار موجود تھا لیکن نوشاد کا دل رام کرنا اور انہیں اپنی جانب راغب کرنا خود کار دشوار تھا ۔وہ جب کسی گلوکار کے سر پر ہاتھ رکھتے تھے تو اس کے کردار اور عادات کا بھی امتحان لیتے۔کسی سگریٹ نوش،شرابی اور لڑکی باز گلوکار کو بھی پاس نہیں پھٹکنے دیتے تھے ۔محمد رفیع میں تو ایسا کوئی عیب تھا ہی نہیں لیکن انہیں ڈر اس بات کا تھا کہ اگر انہوں نے انکار کردیا تو پھر ہندی فلموں میں کام ملنے کی توقع میں کافی وقت گزرجائے گا ۔
(جاری ہے )