صبحِ آزادی
اس کرۂ ارض پر بہت ساری قومیں آباد ہیں اور انسانی تاریخ ایک لمبی داستان ہے ہر قوم کی اپنی تاریخ ہے۔مختلف قوموں نے مختلف وقتوں میں اپنی آزادی کے لئے مسلسل جدوجہد کی ہے۔ ہر دور میں انسانوں کے خیالات میں بڑے بڑے انقلاب آئے مگر پھر بھی انسانوں میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی آزادی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں جب آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو اس کے لئے برصغیر کی تمام قوموں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کی فکری رہنمائی کی پوری قوم کو غلامی کے اندھیروں سے نکالا اور انہیں روشنی کی کرن دکھائی۔ مسلمانوں نے علامہ محمد اقبال کے تصورات کے مطابق آزادی حاصل کرنے کے لئے قائداعظم کی قیادت میں عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔علامہ اقبالؒ نے خطبہ الٰہ آباد میں کھل کر دو قومی نظریہء کے بارے میں اپنی سوچ کا اظہار کیا۔ 23مارچ 1940ء کو علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے قرارداد منظور ہوئی جسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ مسلم لیگ کے لاہور میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے قومی تصور اور ہندو دھرم کے سماجی طریقوں کے آپس کے اختلاف کو محض وہم و گمان بتانا اصل میں ہندوستانی تاریخ کو جھٹلانا ہے۔ ایک ہزار سال سے ہندو تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب ساتھ ساتھ رہی ہے۔ دونوں قوموں کے آپس میں اختلافات بھی س طرح ساتھ ساتھ چلتے آ رہے ہیں اور یہ توقع کرنا سراسر غلط ہے کہ جمہوری آئین کا دباؤ پڑے گا تو ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں گے۔ جب سب کی سوچ اور منزل ایک ہو تو پھر خدا بھی ان کا ساتھ دیتا ہے جو حق پر ہوں مسلمانوں کے سچے جذبوں کی وجہ سے دنیا کی دو بڑی طاقتیں مسلمانوں کے جذبے کے آگے زیر ہوئیں اور سامراجوں نے آخر کار ہار مان لی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک مدبر سیاستدان، ممتاز قانون دان اور دانشور تھے انہوں نے قوم کو اکٹھا کیا متحدکیا۔برصغیر کے مسلمانوں نے قائد کی ایک آواز پر لبیک کہا اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے سب اکٹھے ہو گئے۔ قائداعظم نے مایوس قوم کو قیادت، ولولہ اور جوش دیا مسلمان قوم سامراج اور رام راج سے ٹکرا گئی تو صدیوں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ 27رمضان المبارک 14 اگست1947ء نزولِ قرآن کا دن ایک تاریخ ساز دن اس دن برصغیر کے مسلمانوں نے جانی اور مالی دونوں قربانیاں دیں اور اپنا گھر بار چھوڑ کر قافلوں میں پاکستان کی سرزمین پر پہنچے۔
15جون 1948ء کو کو ئٹہ میں قائداعظم نے خطاب کیا اور کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں نہ بلوچی نہ پٹھان نہ سندھی نہ بنگالی اور نہ پنجابی۔ہمیں پاکستانی اور صرف پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔
پاکستان ایک ایسا ملکِ خداداد ہے کہ جو پاک ساعتوں اور لحظات میں ہمارے بزرگوں کی محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں ثمر کے طور پر ہمیں ملا۔ ہمیں آزادی جیسی نعمت کو اگر دورِ جدید میں بھی جاننا اور پہنچاننا ہے تو ہمیں کشمیر کی مظلوم قوم کی آہ و بکا کو سننا چاہیے۔ ستم زدہ فلسطینیوں کی حالت زار کو دیکھنا چاہیے اس کے دربدر بھٹکتی عوام کو دیکھنا چاہیے جہاں تمام دنیا کی طاغوتی قوتوں نے مل کر یلغار کر رکھی ہے وہاں چاروں جانب آگ برس رہی ہے اور ساری دنیاخاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ ایسے عالم میں جب ہم ملک خداداد پاکستان کی جنت نظیر جنت نشان دھرتی کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سرفخر اور رشک سے بلند ہو جاتے ہیں کہ اس پاک وطن نے ہمیں کتنی بڑی آزادی کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔
اس پاک وطن کی نظریاتی سرحدوں میں علامہ اقبال کی فکر کا جوہر موجود ہے تو کہیں یہ سرسید احمد خان کی جدت پسندانہ سوچ کا امین ملک نظر آتا ہے۔ یہاں مولانا محمد علی جوہر کی تحریکوں کی آواز آج بھی اس کی فضاؤں میں گونجتی اور مہکتی محسوس ہوتی ہے تو مولانا ظفر علی خان کی انقلاب آفرین صحافت بھی اس کی روح اور اساس میں موجود ہے۔
قائداعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک طویل عرصہ تک ہندوستان کے طول و عرض پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کی ہے لہٰذا اس طرح کے شاندار ماضی کی حامل قوم و ملت کبھی بھی تنگ نظر ہندو قوم کی حکومت میں نہ رہ سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت قائداعظمؒ نے اس قوم کو غلامی کی دلدل میں دھنسنے سے بچا لیا۔ اب جبکہ ہمیں یہ آزادی حاصل کئے ہوئے 77برس بیت چکے ہیں تو ہمیں اب حقیقی انسانی اقدار پر مبنی آزادی کو بھی حاصل کرنا ہوگا اور اس ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ لے کر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ 1947ء کے بعد ہمارے ملک کے عوام نے ہر میدان میں محنت کی خاص طور پر سائنس کے میدان میں ہمارے قابل سائنسدانوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا اس سلسلے میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا اور سنہری حروف میں لکھا جائے گا خدا کا شکر ہے کہ ان کی کاوشوں کی وجہ سے آج کوئی دشمن بھی ہمیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے ہمارے خوبصورت ہرے بھرے کھیت کھلیان ہمارے محنتی کسان سردی گرمی میں کھیتی باڑی کرتے نظر آتے ہیں جب فصل پکتی ہے تو تمناؤں کی پیلی سرسوں ’لڈیاں ڈالتی ہواؤں سے چھیڑ خانی کرتی ہے اور جہاں چاروں جانب خوشبو کی پریاں اُڑانیں بھرتی محوپرواز ہوتی ہیں۔
ہمارا پاک وطن سورہ رحمان کی تفسیر ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے 14اگست کا دن بہت اہم ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس دن ہم سب نے فکری آزادی کا وعدہ کیا تھاہم پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنائیں گے۔ ہم اپنے ملک کی چھاؤں میں خوشحالی کے گیت گائیں گے اور ہر پاکستانی عزت اور وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزارے گا۔ قیامِ پاکستان ایک وعدہ ہے ایک معجزہ ہے جسے پوری دنیا نے حیران ہو کر دیکھا کیونکہ پاکستان کو دیو انے کا خواب کہنے والے لوگوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ پاکستان قائم ہے اور تااِبد زندہ و تابندہ رہے گا۔
صبح آزادی
کیوں ترستے ہو اُجالے میں اُجالے کے لئے
یہ اُجالا ہے اُسی صبحِ منور کی ضیاء
جس کی کرنوں سے مٹے اپنی غلامی کے نشاں
جس کی کِرنوں نے کیا اپنی جبیں کو بے داغ
اِنھی کِرنوں سے ملا اپنی نگاہوں کو فروغ
انھی کِرنوں سے ملا اپنی طبیعت کو فروغ
ان ہی کِرنوں سے نظر آئی ہمیں راہِ عمل
ان ہی کِرنوں سے میسر ہوا منزل کا سُراغ
آؤ اِن کِرنوں سے چُن لو مئے راحت کا سرور
آؤ لبریز کرو جوشِ محبت کا آیاغ